افغان امن کانفرنس: پاکستان، روس اور چین کا مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور
افغان امن کانفرنس کے دوران پاکستان، روس اور چین نے مذاکرات کو افغانستان تنازع کا واحد حل تسلیم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا۔
ماسکو میں منعقدہ افغان امن کانفرنس میں پاکستان، چین، روس اور امریکا کے وفود نے حصہ لیا۔
کانفرنس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ چار ملکی مشاورت کے دوسرے دور میں افغانستان میں دیرپا امن کے قیام کے لیے اقدامات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں افغان عوام کے دیرپا امن اور جنگ کے خاتمے کی خواہش کو تسلیم کیا گیا اور سیاسی و سفارتی طریقے سے دیرپا امن کی کوششوں پر غور کیا گیا۔
مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے امریکی سیکریٹری دفاع افغانستان پہنچ گئے
چاروں ممالک نے تسلیم کیا کہ افغان مسئلے کا واحد حل سیاسی مذاکرات میں ہی ہے جبکہ پاکستان، روس اور چین نے مذاکراتی عمل کی جلد بحالی پر زور دیا۔
پاکستان، چین اور روس کا اتفاق تھا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ افغانوں کے مابین مذاکرات کے عمل کے آغاز کے لیے اہم ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ چاروں ممالک افغان مسئلے کے حل کے لیے افغانستان کی حکومت اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔
چاروں ممالک نے مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے بہتر ماحول کے قیام کے لیے فریقین پر تشدد میں کمی پر زور دیا۔
کانفرنس میں افغانستان کے مستقبل کے روڈمیپ کی تیاری کے لئے افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات کو یقینی بنانے کے لئے جنگ بندی پر بھی زور دیا گیا۔
افغانوں کے درمیان مذاکرات کا ماحول پیدا کرنے کے لئے افغان حکومت اور طالبان پر زور دیا گیا کہ ایک دوسرے کے قیدی نمایاں تعداد میں رہا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان سے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
چاروں ممالک کے درمیان اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ جو بھی معاہدہ کیا جائے اس میں بچوں، خواتین، بزرگوں سمیت سب کے حقوق کی پاسداری کی جائے اور ہر مذاکراتی عمل میں افغانستان میں قانون کی حکمرانی، سماجی، اقتصادی ترقی کو مدنظر رکھا جائے۔
کانفرنس میں تمام افغانوں پر زور دیا گیا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ القاعدہ، داعش یا کوئی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔
ممالک نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار، اسمگلنگ یا اس سے پیدا ہونے والے خدشات کی روک تھام پر بھی زور دیا۔
کانفرنس کے دوران تمام متعلقہ ممالک سے کہا گیا کہ افغان امن عمل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
چین کی طرف سے افغانوں کے درمیان سہولت کاری کے آئندہ اجلاس بلانے کا خیرمقدم کیا گیا۔
اعلامیے میں افغاستان کے حوالے سے موجودہ مشاورت کو اہم قرار دیا گیا اور چار فریقی مشاورت کے انعقاد پر روس کو سراہتے ہوئے اگلے اجلاس کی تاریخ کا تعین سفارتی ذرائع سے کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ 08 ستمبر کو ایک ایسے وقت میں طالبان کے ساتھ مذکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جب دونوں فریقین طویل عرصے تک گفت و شنید کے بعد کئی نکات پر متفق ہوچکے تھے اور حتمی معاہدے کا عندیہ دیا جا چکا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اچانک ٹوئٹ کے بعد افغان طالبان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ مذاکرات کی بحالی کے امکانات موجود ہیں لیکن یہ امریکا کی ضرورت ہے۔
تاہم امریکا کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے بعد افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کردیا۔
افغانستان کے لیے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے رواں ماہ اسلام آباد میں طالبان کے وفد سے ملاقات کی تھی تاہم حکام کے مطابق یہ ملاقات مذاکرات کی باقاعدہ بحالی سے متعلق نہیں تھی۔
رائٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گزشتہ ہفتے ٹرمپ کی جانب سے شام سے تمام فوجیوں کے انخلا کے اچانک اعلان کے بعد اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ٹرمپ افغانستان سے فوج کی واپسی پر سنجیدہ ہیں۔
امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر 18 سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ اچانک معطل ہونے والے مذاکرات کی بحالی کے لیے افغانستان پہنچے تھے۔