یہ سوشل میڈیا پر ہر کوئی ’امیزنگ‘ اور ’سپر کول‘ کیوں ہوتا ہے؟


پہلے ٹی وی آیا۔ پھر انٹرنیٹ کی آمد ہوئی اور یوں پھر ہماری پرانی اور جانی پہچانی دوست ’کتاب‘ سے ناتا توڑنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
1960ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان میں جب پہلی مرتبہ ٹی وی متعارف کروایا گیا تب یہ عام خیال پایا جاتا تھا کہ اس نامعقول ڈبے نے قارئین کو کتابوں سے دُور کردیا ہے۔ موجودہ دور میں یہ الزام ڈیجیٹل میڈیم پر عائد کیا جاتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کبھی بھی کتب بینی کے اپنے کلچر کی وجہ سے مشہور نہیں رہا ہے۔
میرا دہائیوں پر محیط یہ مشاہدہ رہا ہے کہ ہمارا معاشرا کاغذ پر چھپے الفاظ سے زیادہ الفت نہیں رکھتا جس کا اندازہ ہماری بلند شرح غیر خواندگی سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔
میں نے اس مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کا ارادہ کیا۔ میرے ذہن میں جو پہلا نام آیا وہ بل گیٹس تھا جو بابائے مائیکرو سافٹ ہونے کے باوجود کتب بینی کا شوق رکھتے ہیں، حالانکہ ڈھیر سارا ڈیجیٹل مٹیریل ان کی دست رست میں ہے۔
بل گیٹس کے ذاتی بلاگ ’گیٹس نوٹس‘ کی خاص بات کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اس میں ایک بُک سیکشن ہے جس میں ان کتب پر معلومات کا خزینہ موجود ہے جن کا مطالعہ بل گیٹس کرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں نے بل گیٹس سے بذریعہ ای میل سوال کیا کہ وہ کتنی کتابیں پڑھتے ہیں۔ مجھے چند لمحوں کے اندر ان کا جواب موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ، ’ایک سال میں 50۔‘
اور بلاگ کی ابتدا کیسے ہوئی؟ ابتدائی طور پر بل گیٹس زیرِ مطالعہ کتاب کے حاشیے پر مختصر نوٹ اور تبصرہ تحریر کرنے کا شوق رکھتے تھے، جنہیں وہ دوستوں کی ایک فہرست کو ای میل کردیتے۔
پھر جب گیٹس نے اپنے قارئین کے حلقے کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیا تو بلاگ متعارف کروا دیا۔
میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس طرح ہیمنگ وے کی کتاب (چاہے وہ آڈیو یا کنڈل کی صورت میں ہو یا پھر اخباری کاغذ پر چھپی ہو) کی جگہ آخر اس ایک بے وقوف کی تقریر کیسے لے سکتی ہے جس میں وہ اس کا خلاصہ پیش کر رہا ہے۔ میں نے ایک پروگرامر اور مطالعے کا شوق رکھنے والے ضیا اکبر سے پوچھا کہ کیا کمپیوٹر کتب کی جگہ لے سکتے ہیں تو ان کا اپنا تجربہ بڑا سبق آموز ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ کمپیوٹرز کے عادی نوجوانوں کی دلچسپی اب لکھے ہوئے الفاظ میں کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔