’میں استعفیٰ نہیں دوں گا‘، اتنی جلدی ردِعمل کون دیتا ہے بھلا؟


جی ہاں آپ نے ٹھیک سُنا ہے۔ وزیرِاعظم نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔ لیکن شاید اپوزیشن کے احتجاج کے پیش نظر اس نوعیت کا ردِعمل دینے میں انہوں نے کچھ زیادہ ہی جلدبازی سے کام لے لیا ہے۔
وہ خواتین و حضرات جو ماضی میں اپوزیشن کی للکاروں پر گہری نظر رکھتے آئے ہیں وہ ضرور سوچ رہے ہیں ہوں گے کہ اس قسم کے ارادوں کے عزم کو کلائمکس تک کے لیے بچا کر رکھا جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت کے لیے جب اقتدار کے منصب پر بیٹھے شخص کو واضح خطرہ نظر آنے لگتا ہے اور حکومت کے پاس زیادہ آپشنز ہی نہیں بچتے۔
جب پُرجوش حکومت مخالفین سڑکوں پر احتجاج کے دوران اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے ہیں تب روایتی طور پر وزیرِاعظم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام سرگرمیوں سے خود کو الگ تھلگ رکھیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کریں کہ جیسے مخالفین وجود ہی نہیں رکھتے۔ ایک ایسا وقت جب حکومت اپنے مختلف اہم کھلاڑیوں کو میدان میں اتارتی ہے اور ان کی قیادت اکثر و بیشتر وزیرِاطلاعات کو کرنا ہوتی ہے۔
وزیرِاعظم نے اس پورے سلسلے کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے خود کو ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کیا ہے جسے ایسے اقدامات اٹھانا پسند ہیں جن سے روایت شکنی ہوتی ہے۔
وہ اپنے اس سنجیدہ لہجے کو اپناتے ہوئے خود کو ایک ایسا شخص ظاہر کرسکتے تھے جو 2018ء کے عام انتخابات کے فوراً بعد اپوزیشن کے سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔ مگر انہوں نے روایت توڑی اور بڑی خوشی سے اپنے مخالفین کو ڈانٹ پلائی اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
تاہم اب محترم عمران خان بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کی مذاکراتی ٹیم کو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کے حل کرنے کی کوئی راہ نکالنے کا کام سونپا گیا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں اور چونکہ اپوزیشن ابھی بھی ایک صف میں کھڑی نظر نہیں آتی اس لیے یہ کام مزید پیچیدہ بن گیا ہے۔ حکومت مخالف جماعتیں ابھی تک ان مطالبات پر ہم آہنگ ہی نہیں ہوپائی ہیں جنہیں وہ انفرادی سطح پر حکومت سے منوانا چاہتی ہیں۔
حکومت اپوزیشن پر زور دے گی کہ وہ وزیرِاعظم کے استعفیٰ کو چھوڑ کر دیگر مطالبات کی فہرست ان کے سامنے رکھے۔ موجودہ حالات میں ایسی کسی تجویز کی زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہاں البتہ کوئی معجزہ رونما ہوجائے تو اور بات ہے، ورنہ ہم لڑائی جھگڑے والی سیاست کے ابتدائی مرحلے سے بھرپور جاڑے میں داخل ہوسکتے ہیں بھلے ہی پھر اچانک سے وزیرِاعظم جلدی سے سارا معاملہ سمیٹنے پر زور دیتے ہوں۔