چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور
لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی۔
عدالت عالیہ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی چوہدری شوگر ملز کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست سے طبی بنیادوں پر رہائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے آج ہونے والی طویل سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اس کیس میں ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروائیں۔
اگرچہ درخواست کے منظور ہونے کے بعد نواز شریف نیب کی حراست سے تو رہا ہوجائیں گے لیکن ان کی جیل سے اس وقت تک باضابطہ طور پر رہائی ممکن نہیں ہے جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا معطل کرکے ان کی ضمانت منظور نہیں کرتی۔
واضح رہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز میں نواز شریف 7 سال قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں، طبی بنیادوں پر اس سزا کی معطلی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی ایک الگ درخواست زیر التوا ہے، جس پر وفاقی دارالحکومت میں آج (25 اکتوبر) کو سماعت ہوئی تھی اور عدالت نے کارروائی کو منگل (29 اکتوبر) تک ملتوی کردیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت
قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ میں شہباز شریف کی اس درخواست پر سماعت ہوئی تھی، جس میں استدعا کی گئی تھی کہ نواز شریف کی طبیعت تشویشناک حد تک خراب ہے لہٰذا ان کو رہائی دی جائے تاکہ ان کا مکل علاج ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو کینسر نہیں مرض قابل علاج ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی
مذکورہ درخواست کی کل ہی سماعت کر کے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے گئے تھے جبکہ آج اس درخواست میں نواز شریف نے بذات خود بھی فریق بننے کی درخواست دی تھی۔
سماعت میں حکومت پنجاب کی نمائندگی ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کی جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر فیصل بخاری پیش ہوئے۔
شہباز شریف کی جانب سے دائر درخواست کی پیروی کے لیے اشتر اوصاف علی پیش ہوئے جنہوں نے عدالت میں کہا کہ نواز شریف کی حالت ’تشویشناک‘ ہے۔
سماعت کی ابتدا میں ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا علاج بین الاقوامی میعار کے مطابق کیا جارہا ہے اور مجھ بتایا گیا ہے کہ ان کی بیماری قابلِ علاج ہے اور وہ اس حالت میں سفر نہیں کرسکتے۔
عدالت نے اس سلسلے میں نیب کا موقف دریافت کیا تو پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ نواز شریف سمیت ہر شخص کی زندگی اہم ہے اور پاکستان میں علاج معالجے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر نے بھی کہا کہ نواز شریف کی بیماری قابلِ علاج ہے، وہ نیب کے ملزم ہیں اور ہمیں ان کی بیماری کا پورا خیال ہے۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم نے مریم نواز کو والد سے ملاقات کی اجازت دینے کی ہدایت کردی، گورنر پنجاب
بعدازاں عدالت نے نوازشریف کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز کے آنے تک سماعت ملتوی کردی تھی۔
ڈاکٹر محمود ایاز کے لاہور ہائی کورٹ پہنچنے کے بعد سماعت دوبارہ شروع کی گئی جس میں انہوں نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ نواز شریف کا علاج کرنے والا میڈیکل بورڈ 6 اراکین پر مشتمل تھا تاہم اب اس میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید کچھ ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔
عدالت کے طلب کرنے پر ڈاکٹر محمود ایاز نے نواز شریف کی صحت سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ سابق وزیراعظم دل کے مریض اور ذیابیطس سمیت متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل بورڈ دن میں 3 مرتبہ نواز شریف کا معائنہ کرتا ہے جبکہ روزانہ 2 مرتبہ اجلاس بھی ہوتا ہے جس میں نواز شریف کی صحت سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں۔
جس پر عدالت نے دریافت کیا کہ ان کی صحت کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے اور کیا ان کا وزن بھی کم ہورہا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی صحت سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل ہوگا، فردوس عاشق اعوان
ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا کہ 2 سے 3 ماہ کے عرصے میں نواز شریف کا وزن 5 کلو کم ہوا، ان کے ڈینگی کے ٹیسٹ بھی کیے گئے تھے ان کے پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم روزانہ انہیں پلیٹلیٹس لگاتے ہیں اور وہ روز تباہ ہو جاتے ہیں اس کے لیے انہیں سٹیرائیڈز دینا ہوں گے۔
معالج نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں بون میرو ٹیسٹ کرنا ہے مگر نواز شریف کی ہڈی میں سوئی نہیں لگا سکتے کیونکہ کوئی ایسی چیز ہے جو نواز شریف کے پلیٹلیٹس تباہ کر رہی ہے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق تازہ ترین رپورٹ پیش کی جائے جو نہایت اہمیت کی حامل ہے جبکہ مزید سماعت ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی تھی۔
وقفے کے بعد ہونے والی سماعت میں ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے ابھی دوبارہ اجلاس کی ہے اور عدالت کی استفسار پر نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ بھی پیش کی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ آپ نواز شریف کے ہسپتال میں علاج کے بارے کیا کہتے ہیں؟ چنانچہ میڈیکل بورڈ کے سربراہ نے عدالت میں سابق وزیراعظم کی مکمل میڈیکل ہسٹری پڑھ کر سنائی۔
ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات نواز شریف کے سینے میں تکلیف ہوئی اور بازوں میں بھی تکلیف ہوئی تھی، ان کی بیماری کی تشخیص کچھ حد تک ہو چکی ہے لیکن مکمل تشخیص نہیں ہوئی، انہیں یہ بیماری ہوئی کیسے اس بات کا پتا چلا رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: نوازشریف کو قانونی ضمانت نہیں مل سکتی، طبی بنیاد پر معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہائیکورٹ
دورانِ سماعت لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف کی جان خطرے میں ہے؟
جس پر ڈاکٹر محمود ایاز کا کہنا تھا کہ جی نواز شریف کی طبیعت تشویش ناک ہے، نواز شریف اس وقت سفر کر سکتے ہیں جب ان کے پلیٹلیٹس 50000 ہوں اس سے پہلے نہیں۔
بعدازاں عدالت نے نیب پراسیکوٹر سے دریافت کیا کہ کیا نیب اس درخواست ضمانت کی مخالفت کرتا ہے؟
جس پر نیب وکیل کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن ہے تو ادھر ہی علاج ہونا چاپیے لیکن اگر نواز شریف کی صحت خطرے میں ہے تو ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں۔
سماعت میں دلائل دیتے ہوئےنواز شریف کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کی طبیعت زیادہ خراب ہے اور ان کا بہترین علاج ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس اچانک کم زیادہ ہو رہے ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں کہ طبی بنیادوں پر ضمانت دی جاتی ہے۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کو ضمانت پر رہا نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جبکہ ہسپتال کو سب جیل قرار دینا بھی پریشان کرنے والی بات ہے کیوں کہ نواز شریف کو سکون بھی درکار ہے۔
بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ہونے کے حوالے سے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ایک مرتبہ پھر 3 بجے تک ملتوی کردی۔
بعد ازاں جب 3 بجے جب سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو عدالت نے نواز شریف کی درخواست ضمانت کو طبی بنیادوں پر منظور کرلیا۔
ساتھ ہی عدالت عالیہ نے نواز شریف کو ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔
مریم نواز کی درخواست پر سماعت
دوسری جانب عدالت میں مریم نواز کی فوری رہائی سے متعلق بھی درخواست پر اسی بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر جواب جمع کرادیا ہے؟، اس پر نیب کی جانب سے جواب جمع کروانے کی مہلت مانگی گئی۔
جس پر جج نے کہا کہ مریم نواز کی نواز شریف سے ملاقات کروائی جارہی ہے یا نہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل 3 بجے اس پر رپورٹ دیں۔
بعد ازاں عدالت نے مریم نواز کی درخواست پر بھی کارروائی 3 بجے تک ملتوی کردی، تاہم جب وقفے کے بعد کیس کی سماعت ہوئی تو عدالت نے مریم نواز کی درخواست پر نیب سے پیر تک جواب طلب کرلیا۔
نواز شریف کی خرابی صحت
یاد رہے کہ 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہو گئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔
سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید کچھ ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔