مقبوضہ کشمیر: 'بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید 3 کشمیری شہید'
دفترخارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم جاری ہیں اور حالیہ واقعات میں ضلع پلوامہ میں ترال کے علاقے میں 3 کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بتایا کہ کشمیر میں بھارت کا قبضہ جاری ہے اور 80 روز سے وادی میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ برقرار ہے۔
دوسری جانب ریڈیو پاکستان نے رپورٹ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی حالیہ ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں پلوامہ میں مزید 3 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا گیا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، بھارتی مجسٹریٹ
رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے ترال کے علاقے میں راجپورہ کے مقام پر محاصرہ کرکے سرچ آپریشن کیا۔
دوسری جانب ضلع راجوری کے علاقے نوشہرہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بھارتی فوج کا جونیئر کمیشنز افسر ہلاک ہوگیا۔
علاوہ ازیں کشمیر میڈیا سروس نے رپورٹ کیا کہ اس حملے کے فوری بعد بھارتی فورسز نے علاقے کا محاصرہ کیا اور حملہ آوروں کی تلاش شروع کردی۔
ادھر بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا کہ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں '3 دہشت گردوں کو قتل کیا گیا، جن کا تعلق کالعدم جیش محمد سے تھا'۔
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے آئے روز ایسے دعوے سامنے آتے رہتے ہیں، جس کا وہ ثبوت پیش نہیں کررہا، اسی طرح کا دعویٰ بھارتی آرمی چیف نے حالیہ بیان میں بھی کیا تھا کہ انہوں نے آزاد کشمیر میں مبینہ کیمپوں کو نشانہ بنایا۔
تاہم وہ اپنے کسی بھی دعوے کو ثابت نہیں کرسکے تھے اور بھارت کا جھوٹ اس وقت بے نقاب ہوگیا تھا جب غیر ملکی سفرا اور میڈیا نمائندگان نے آزاد کشمیر میں ایل او سی کے سیکٹر کا دورہ کیا تھا اور بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ سے شہری آبادی کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال
اگر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کی بات کی جائے تو 5 اگست کو بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے اس متنازع علاقے کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی قانون سازوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پھر تشویش ظاہر کردی
ساتھ ہی بھارت نے اس آئین کے آرٹیکل کو ختم کرنے کے ساتھ ہی وہاں کرفیو اور مکمل لاک ڈاؤن کردیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی مکمل طور پر معطل کردیا تھا۔
وادی میں مسلسل لاک ڈاؤن کو 80 روز ہوچکے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اب تک ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت نظربند اور گرفتار ہیں۔
یہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت نے اپنے یکطرفہ اقدام کے خلاف آواز کو دبانے کے لیے وہاں ایک پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کردیا ہے، جس کے تحت انتظامیہ کسی بھی شخص کو بغیر کسی جرم یا ٹرائل کے دو سال کی مدت تک جیل میں رکھ سکتی ہے۔
آرٹیکل 370 کیا ہے
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کے اختیارات دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے
1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔