میرے آنسو تو دلی جانے سے مت روکیے!
’مت بھیجنا اب کچھ!
جھوٹے بھائی!
بہت گالی دینے کا من کر رہا ہے‘
بے تکلفی کے یہ لفظ چند دن قبل فیس بک کے نجی پیغام رسانی کے چوکھٹے میں ابھرے۔ یہ نئی دلی سے محمد علم اللہ ہم سے مخاطب تھے۔ پچھلے برس ان کا ایران کا سفرنامہ تبصرے کے لیے ہمارے پاس آیا تھا، تب سے پکا ارادہ کیا ہوا تھا کہ ہم انہیں خط ضرور لکھیں گے، وہ بھی کاغذ اور قلم سے، اور پھر اسے ای میل یا اور کسی برقی وسیلے کے بجائے ڈاک سے روانہ کریں گے، یہ سوچتے سوچتے 23 مارچ آگئی، جس دن ہم نے بیٹھ کر اپنے خلوص اور محبت کو لفظوں میں سمو کر کاغذ کے صفحات پر اتار ہی لیا۔
ہمارے یہ لفظ اپنی مجسم صورت میں اس نگری کو جانا ہیں کہ جہاں ہماری نانی اور دادی وغیرہ نے بچپن کھیلا ہے۔ بس جذبات کا پیمانہ بار بار پلکوں سے چھلک کر ان سطروں کے درمیان مُہر ثبت کرتا جا رہا تھا، اور میں اپنے مخاطب کو یہ بتا بھی رہا تھا کہ دیکھو دوست، اس خط میں جو لفظوں کے درمیان یہ خالی جگہ چُھوٹی ہوئی ہے نا، یہاں میرے آنسو سرحد کے پار جانے کو بے قرار اتر کے ٹھیرے ہیں۔ یعنی لفظ جہاں اظہار سے معذور ہوئے، وہاں آنکھوں کو لب کشائی کرنا پڑی ہے، ہرچند کے میرے تو ماں باپ بھی یہیں پیدا ہوئے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ میں یہ ہجر کی اداسی کیسے حلول کر گئی، کہ جیسے میرے بزرگوں کو نہیں، بلکہ مجھے ہی دلی چھوڑنا پڑا ہو۔ شاید یہ میرے پُرکھوں کے ضبط کیے ہوئے اَشک ہیں، جو اب لبریز ہوکر میری نگاہوں کا منظر دھندلائے دیتے ہیں۔