Parenting

بچوں میں خودکشی کی 7 علامات

زیادہ تر بچے جو خودکشی کا سوچ رہے ہوتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کی خودکشی کے رجحان کےبارے میں جانیں اور انہیں روکیں۔

'میری خواہش تھی کہ موٹر سائیکل ڈگمگائے اور میرا سر زور سے سڑک سے ٹکرا جائے،' وہ یہ الفاظ روانی میں کہہ رہا تھا اور میرے جسم میں ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔

تازہ تازہ انجنئیرنگ کی پڑھائی سے فارغ ہو کر وہ میڈیا کی فیلڈ میں داخل ہوا تھا، مسلسل ایک غیر دلچسپ فیلڈ میں رہنے سے اعصاب ویسے ہی کمزور ہو گئے تھے، پھر کام کے سلسلے میں گھر والوں سے مسلسل دور ایک بڑے شہر میں اکیلے رہنے سے اس کی سوچ بے سمت اور ہمت پست ہو چکی تھی۔

اسی کا اثر اس کے اعصاب نے اس صورت میں دکھایا کہ سر میں شدید درد کے دورے اس کو زندگی سے بیزار کر دیتے۔

اور پھر ایک دن میں نے اس کو خودکشی کے رجحان کی طرف جاتے دیکھ کر فوراٗ سے اس کی توجہ کچھ اس کے پسند کے موضوعات کی طرف دلائی اور توجہ سے اس کی بات سنی تو وہ جلد اس کیفیت سے باہر نکل آیا۔

لیکن شاید زیادہ تر بچے اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے کہ انہیں وقت پر 'سننے والے کان' اور 'سمجھنے والے دل مل جایا کریں، کبھی والدین کی سختی، تو کبھی پڑھائی کا بڑھتا دباؤ، کبھی کسی قسم کی ہراسانی تو کبھی ناپسندیدہ مضامین کا چناؤ اور اس جیسے کچھ دیگر ایشوز کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق 2012 سے 2019 تک پاکستان میں 13000 سے زائد لوگ خودکشی کرچکے ہیں جبکہ کچھ تحقیقات کے مطابق 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں موت کی دوسری بڑی وجہ خودکشی ہے۔

اخبارات اور دیگر میڈیا میں آئے روز ٹین ایجرز، بچوں اور نوجوانوں کی خودکشی کے واقعات یقیناٗ والدین کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہیں، واقعات کی وجوہات نہ صرف یہ کہ بہت معمولی ہوتی ہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی بھی کر رہی ہوتی ہیں کے یہ فیصلہ راتوں رات نہیں لیا جاتا بلکہ اس کے پیچھے ان گنت علامات ہوتی ہیں جن کو نظر انداز کیا جا رہا ہوتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ 80 فیصد سے زائد نوجوان یا بچے جو خود کشی کا سوچ رہے ہوتے ہیں یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ دوسرے ان کی خود کشی کے رجحان کے بارے میں جانیں اور انہیں 'روکنے' کی کوشش کریں۔

بچوں میں خودکشی کے رجحان کی علامات کو کیسے جانا جائے؟

والدین کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کا کردار اس طرح سے تعمیر کریں کہ وہ مختلف طرح کے حالات کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ والدین بچوں کی سماجی، جذباتی اور جسمانی ضروریات کا باریک بینی اور محبت سے خیال رکھیں۔

اس کے ساتھ ضروری ہے کہ والدین ذہنی اور جذباتی طور پر الرٹ رہیں تاکہ وہ بچوں کے اندر خود کشی کی علامات کو وقت سے پہلے دیکھ یا محسوس کرسکیں۔

ماہرین کے مطابق عام طور پر درج ذیل 7 بنیادی علامات ہیں جو کسی بچے یا نوجوان کے اندر خود کشی کے رجحان کو ظاہر کر رہی ہوتی ہیں۔

1۔ بے بسی، نا امیدی، شرمندگی یا ذاتی ناپسندیدگی جیسی کیفیات کا پایا جانا

2 ۔ سونے کے اوقات اور موڈ میں تبدیلیاں اور ساتھ ہی اکیلا رہنے کے رجحان کا بڑھنا

3 ۔ دوستوں، سرگرمیوں یا مشاغل میں دلچسپی کا خاتمہ ہوتے چلے جانا

4 ۔ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کا رجحان پیدا ہونا

5 ۔ اینزائٹی یا ڈپریشن کی علامات کا پایا جانا

6 ۔ جارحانہ پن یا غصے میں اضافہ ہو جانا

7 ۔ خود کے مرنے، غائب ہوجانے وغیرہ کا تذکرہ کرنا

ایسے میں والدین کو کیا کرنا چاہیے؟

سب سے اہم بات یہ کہ بچے کے مسائل کو 'غور سے سنیں، اسے احساس دلائے کہ وہ آپ کے لیے اور آپ اس کے لیے دنیا کے سب سے قریبی اور اہم شخص ہو'۔

والدین کے لیے لازمی ہے کہ بچوں کے ساتھ کھلا اور اعتماد بھرا تعلق قائم کریں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ بچے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ بات کریں جس کے دوران بچہ اپنے مسائل اور پریشانیاں آپ سے شئیر کر سکے، آپ کا یہ عمل بچے کو اعتماد دے گا کہ 'کوئی ہے جو اس کی بات ہمیشہ سنتا اور سمجھتا ہے'۔

خود کشی پر بات کیجیے

اگر بچے کے علم میں یہ خودکشی کے حوالے سے کوئی واقعہ سامنے آتا ہے تو اس واقعے کو بچے کو سمجھانے کے موقع بنائیں، اس بات سے نہ شرمائیں اور نہ خوف کھائییں بلکہ بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کر سکے۔

بچے کے سرکل سے فیڈبیک لیجیے

اپنے بچے کے دوستوں، ان کے والدین اور ٹیچرز سے بچے کے حوالے سے فیڈ بیک لیں، خصوصاً جب آپ محسوس کریں کہ بچے کسی حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں۔

بچے کے ساتھ ٹیم ورک کریں

بچوں کے ذہنی، جذباتی یا جسمانی مسائل حل کرنے کے لیے ان کے ساتھ ٹیم ورک کریں، یہ بات بچے کو پریشانی سے نکالنے میں مددگار ثابت ہو گی، کبھی کبھار اپنی مرضی ٹھونسنے کے بجائے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی ماہر جیسے کاؤنسلر کی مدد لینا بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیں امتحانات میں کم نمبر بعد میں زیادہ ہو سکتے ہیں، وقتی 'پیار' کے اثرات آہستہ آہستہ ختم ہو جاتےہیں، بچے کی کوئی ناپسندیدہ عادت ٹھیک ہو سکتی ہے لیکن بچہ ایک دفعہ جان سے چلا جائے تو وہ کبھی واپس نہیں آسکتا ۔


فرحان ظفر اپلائیڈ سائیکالوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما ہولڈر ہیں، ساتھ ہی آرگنائزیشن کنسلٹنسی، پرسنل اور پیرنٹس کاؤنسلنگ میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے ساتھ farhanppi@yahoo.com اور ان کے فیس بک پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔