ترکی، روس کے مابین شام کے شمالی حصے سے کرد فورسز کی بے دخلی کا معاہدہ
ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلو میٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پاگیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فورسز 'سیف زون' میں مشترکہ پیٹرولنگ کریں گی۔
مزید پڑھیں: اردوان نے مغرب پر شام میں 'دہشت گردوں کا ساتھ دینے' کا الزام عائد کردیا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی ملٹری پولیس اور شامی بارڈر گارڈ وائے پی جی کے جنگجوؤں کی پسپائی اور ہتھیاروں کو ہٹانے کا کام کریں گے۔
معاہدے کی رو سے تمام امور 6 روز کے اندر مکمل کیے جائیں گے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے معاہدے سے متعلق کہا کہ اس سے خطے میں خونریزی کا اختتام ہوگا۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انقرہ کا شام میں کوئی کردار نہیں لیکن جنوب سے وائے پی جی کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلا جائے گا۔
مزید پڑھیں: شمالی شام میں جنگ بندی کے باوجود کرد دہشت گردوں نے حملہ کیا، ترکی
انہوں نے روس کے صدر ولا دیمیر پیوٹن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’آپریشن کا بنیادی مقصد پی کے کے/ وائے پی جی کی دہشت گرد تنظیموں کو خطے سے نکالنا اور شامی پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کا مقصد شامی خطے کی سالمیت اور سیاسی استحکام بھی تھا، ہمیں کبھی بھی شام کی سرزمین اور اس کی خودمختاری میں دلچسپی نہیں رہی‘۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ انقرہ میں موجود شامی پناہ گزینوں کی محفوظ واپسی کے لیے ماسکو کے ساتھ کام کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز رجب طیب اردوان نے مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کے آپریشن میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی شام میں ترکی کے حملے، 14 شہری ہلاک
انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔
انقرہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے 'پی کے کے' کو بلیک لسٹڈ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
انقرہ کی کرد فورسز کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کردی ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا 'گہری تشویش' کا اظہار کیا تھا۔