مریم نواز کی اپنے والد سے ہسپتال میں ملنے کی درخواست مسترد
لاہور کی احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لیے ایک گھنٹہ دینے کی درخواست مسترد کردی۔
ساتھ ہی عدالت نے مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کے عدالتی ریمانڈ میں مزید 2 روز کی توسیع کرتے ہوئے انہیں دوبارہ 25 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت میں جج چوہدری امیر محمد خان نے کیس کی سماعت کی، اس دوران مریم نواز اور یوسف عباس کو پیش کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ڈاکٹرز نے نواز شریف کے خون کی ٹیسٹ رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دے دیں
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور کارکنوں کو عدالت میں پہنچنے سے روکنے کے لیے اطراف کے راستوں کو بھی بند کیا گیا تھا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر وہاں موجود کچھ لیگی رہنماؤں نے مریم نواز سے بات چیت کی جبکہ ان کے صاحبزادے جنید صفدر نے بھی اپنی والدہ سے ملاقات کی۔
اس موقع پر مریم نواز نے لیگی رہنما عطا تارڑ سے نواز شریف کی صحت دریافت کی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس 2 ہزار پر آگئے تھے، اس پر مریم نواز نے پوچھا کہ اتنے کم کیسے ہوگئے۔
اسی دوران مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی خیریت دریافت کرنے کے لیے انہیں فون کیا، نواز شریف سے بات کرتے ہوئے مریم نواز رو پڑیں۔
بعد ازاں عدالت میں کیس کی مختصر سماعت ہوئی جس میں نیب کے تفتیشی افسر سے استفسار کیا گیا کہ ریفرنس کب دائر کیا جائے گا۔
اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے، ریفرنس چیئرمین نیب کی منظوری کے بعد دائر کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کی صحت کو نقصان پہنچا تو وزیر اعظم ذمہ دار ہوں گے، مسلم لیگ (ن)
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مریم نواز اور یوسف عباس کو چوہدری شوگر ملز کیس میں 8 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ مریم نواز اور یوسف عباس 48 روز تک جسمانی ریمانڈر پر نیب کی تحویل میں رہے اور کی ان کی یہ ساتویں پیشی تھی جبکہ جوڈیشل ریمانڈ کے بعد دوسری مرتبہ انہیں عدالت میں پیش کیا گیا۔
علاوہ ازیں عدالت میں موجود مریم نواز نے جج سے استدعا کی کہ انہیں پیرول پر رہائی دی جائے اور عدالت انہیں ایک گھنٹے کی مہلت دے تاکہ وہ ہسپتال میں اپنے والد نواز شریف سے مل سکیں۔
تاہم احتساب عدالت نے مریم نواز کی اس استدعا کو مسترد کردیا۔
چوہدری شوگر ملز کیس
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔
بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔
اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔
جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔
مزید پڑھیں: نیب کا مریم نواز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز
جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔
8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔
جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی اور، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔
18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔