دنیا

کشش ثقل سے چلنے والا پہلا بلب

یہ لائٹ کششِ ثقل کے زریعے روشنی پیدا کرتی ہے اور جلد ہی اس کے ہزاروں نمونوں کی آزمائش شروع ہوجائے گی۔

اسے چارج ہونے میں صرف تین سیکنڈ لگتے ہیں اور یہ 25 منٹ تک روشنی دے سکتی ہے۔ بیٹری کے بغیر یہ لائٹ صرف مٹی یا وزنی شے اورکششِ ثقل سے بجلی بناتی ہے اور اس کی قیمت صرف پانچ ڈالر تک ہوسکتی ہے۔

مارٹن رڈی فورڈ اور جم ریوز نامی دو برطانوی موجدوں کی اس کوشش کو ' ثقل روشنی' یا ' گریوٹی لائٹ' کا نام دیا گیا ہے۔ دونوں ماہرین نے اس ایجاد کو ڈرائنگ بورڈ کے تخیل سے پہلے نمونے ( پروٹوٹائپ) تک منتقل کرنے کیلئے چار سال تک انتھک محنت کی ہے۔

ثقل = روشنی

انناس جیس شکل کی یہ ایل ای ڈی لائٹ اور اس کا پورا نظام ایک وزنی بیگ کی مدد سے چارج ہوتا ہے۔ اس مضبوط بیگ میں مٹی، پتھر ڈالے جاتے ہیں جن کا وزن نو یا دس کلوگرام تک ہوتا ہے  ۔ یہ وزن ایک تار سے جڑ کر پورے نظام سے منسلک رہتا ہے۔

پہلے بیگ (وزن) کو چھ فٹ تک بلند کرتے ہیں تو چھوڑے جانے پر وزن کسی چرخی پر رسی کی طرح پھسلتا ہے لیکن بہت آہستگی سے۔

تار دھیرے دھیرے کھسکھتے ہوئے اندر موجود چرخیوں اور گراریوں کو گھماتا ہے۔ اس میں نصب ایک موٹر ہزاروں چکر لیتی ہے اور اس سے بجلی بنتی ہے اور ایل ای ڈی روشن ہوجاتی ہے۔ گریویٹی لائٹ اس وقت روشنی دیتی رہتی ہے جب تک 25 منٹ کے بعد وہ بالکل نیچے کی جانب نہیں پہنچ جاتا ۔

اس طرح تین سیکنڈ میں چارج کے بعد یہ تقریباً 25 منٹ تک روشنی بکھیرتی رہتی ہے جو مٹی کے تیل سے جلنے والے لیمپ یا لالٹین کی روشنی س کچھ ذیادہ ہوتی ہے۔

تاہم روشنی کی شدت کو کم یا ذیادہ بھی کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اوسط سے کم وقت کیلئے ذیادہ روشنی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔

ثقل روشنی کے نظام پر سامنے کی جانب دو ٹرمینلز بھی موجود ہیں جو ریڈیو اور بیٹریوں وغیرہ میں بجلی بھرنے کیلئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔

سائنس اینڈ ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے مطابق اس سال کے آخر میں اس کے کئی نمونے ترقی پذیر ممالک میں فیلڈ ٹیسٹنگ کے لئے بھجوائے جائیں گے۔ جہاں تمام حالات اورماحول میں ان کی آزمائش کی  جائے گی اور انہیں لگاتار کئی کئی دنوں تک چلایا جائے گا۔

اگر سب ٹھیک رہا تو یہ ایجاد ان علاقوں کے افراد کیلئے امید کی کرن ثابت ہوگی جو گرڈ بجلی سے دور رہتے ہیں خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں۔ ثقل روشنی سورج غروب ہونے کے بعد ان لوگوں کی زندگی میں  کئی گھنٹوں تک ماحول دوست اجالے  پھیلاسکتی ہے۔ اسی طرح شام کا اندھیرا پھیلنے کے بعد بھی بچوں کو کھیلنے اور پڑھنے کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔

یہ لائٹ شمسی لالٹینوں ( سولر لینٹرنس) اور چابی بھرنے والے روشنیوں کے مقابلے میں کہیں ذیادہ سادہ اور کم خرچ ہے کیونکہ ایک جانب تو ان سولر سیلز کی قیمت بہت ذیادہ ہوتی ہے اور دوسری جانب ان سے روشنی حاصل کرنے کیلئے مسلسل اور ذیادہ دیر تک چابی بھرنی ہوتی ہے۔

مٹی کے تیل کا متبادل

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی ( آئی ای اے) کے مطابق دنیا میں پچیس کروڑ گھروں یا تقریباً ایک ارب آبادی بجلی سے محروم ہے اور سورج ڈھلنے کے بعد وہ مٹی کے تیل سے جلنے والے لیمپ یا چراغوں وغیرہ پر انحصار کرتے ہیں۔

لیکن مٹی کے تیل سے جلنے والے لیمپ اور لالٹین کے صحت، معیشت اور ماحول پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پہلے سے غربت کے شکار خاندان اپنی آمدنی کی 10  تا 20 فیصد رقم گھر کو روشن رکھنے پر خرچ کرتےہیں۔

مٹی کے تیل سے روشنی سے میں گھر کے اندر شدید آلودگی پھیلتی ہے اور ہوا کے ناکافی گزر کی وجہ سے گھٹن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیاہ کاربن اور دھویں کی وجہ سے ٹی بی، پھیپھڑوں کا انفیکشن، آنکھوں کے امراض یہاں تک کہ موتیا بھی پھیلتا ہے۔ باوثوق مطالعوں سے ثابت ہوا ہے کہ اس آلودگی سے خواتین اور بچے سب سے ذیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

مٹی کے تیل جلنے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ روزانہ کئ سگریٹ پینے کے برابر ہوتا ہے۔

اسی طرح بچوں میں زہرخورانی کی اہم وجہ مٹی کا تیل ہی ہے جسے بچے غلطی سے پی لیتے ہیں۔ دوسری جانب نائیجیریا میں جلنے  تیس فیصد کیسزکی وجہ بھی مٹی کے تیل کا استعمال ہے۔

اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں  مٹی کے تیل سے آتشزدگی سے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوتا ہے۔

اسی لئے ایک ماحول دوست، کم خرچ اورقابلِ اعتبار روشنی کا طریقہ ہی ان مسائل کا حل ثابت ہوسکتا ہے۔

کراؤڈ فنڈنگ کی مثال

اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے وسائل دستیاب نہ تھے اور اس کیلئے انڈی گو گو کی ویب سائٹ پر عوامی عطیات کی اپیل کی گئی۔ ان دونوں موجدین کو تقریباً 55,000 ہزار ڈالر کی ضرورت تھی لیکن چالیس دن کی مہم کے بعد انہیں تقریباً 400,000 ڈالر کے عطیات موصول ہوگئے!

اب اس ٹیم نے اس رقم سے ایک سٹارٹ اپ کمپنی ڈیکی واٹ قائم کی ہے۔ اس کا مقصد روشنی پیدا کرنے والے کم خرچ اور مؤثر آلات تیار کرنا ہے۔

سائنس فور ڈویلپمنٹ نیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے جم ریوزنے کہا کہ  اس سال ہزاروں کے قریب گریویٹی لائٹ کے نمونے ایشیا اور افریقہ کے غریب ممالک کو فراہم کئے جائیں گے تاکہ ان کی آزمائش کی جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سال اس روشنی کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لئے کام شروع کیا جائے گا اور توقع ہے کہ ایک آلے کی قیمت پانچ سے دس ڈالر تک ہوگی۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جہاں آج بھی ہزاروں گاؤں تک بجلی اب تک نہیں پہنچی۔ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سورج کم کم چمکتا ہے اور دیگر ذرائع بھی نہیں۔ اس تناظر میں یہ سادہ اور حیرت انگیز ایجاد لوگوں کی زندگی میں ایک روشنی کی کرن ثابت ہوگی اور دوسری جانب پاکستان تاریخ کے شدید ترین بحران کا شکار بھی ہے۔