مدارس کو ’ڈائریکٹریٹ‘ کے ماتحت لانے کیلئے تمام امور کو حتمی شکل دے دی گئی
وزارت وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے ڈائریکٹریٹ کے قیام سے متعلق تمام امور کو حتمی شکل دے دی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ منصوبہ تقریباً مکمل ہے اور آئندہ چند روز میں وزارت، ڈائریکٹریٹ جنرل آف ریلیجیس ایجوکیشن کو فعال کیے جانے کا اعلان کرے گی۔
مزید پڑھیں: ملک میں 30 ہزار رجسٹرڈ مدارس میں سائنس، انگریزی بھی پڑھانے کا فیصلہ
انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹریٹ جی 8 میں بیسک ایجوکیشن کمیونٹی اسکول (بی ای سی ایس) کی عمارت میں ہوگا اور 16 شہروں میں اس کے ذیلی دفاتر ہوں گے۔
اس ضمن میں بتایا گیا کہ وزارت تعلیم کے جوائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر پروفیسر رفیق طاہر کو ڈائریکٹریٹ کا سربراہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق ڈائریکٹریٹ اور ذیلی دفاتر کو فعال کرنے کے لیے بی ای سی ایس اور نیشنل کمیشن آف ہیومن ڈیولپمنٹ کے متعدد ملازمین کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے وزیر تعلیم شفقت محمود نے بتایا کہ ’جی ہاں، ہم نے مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں سہولیات فراہم کرنے سے متعلق تمام امور کو حتمی شکل دے دی اور بہت جلد خصوصی مجاذ کے حامل ڈائریکٹریٹ، تمام مدارس کے معاملات دیکھے گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ مذکورہ ڈائریکٹریٹ وفاقی حکومت کے ماتحت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت لانے کا معاملہ، 'ابتدا میں رجسٹرڈ اداروں پر کام ہوگا'
ساتھ ہی انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ’یہ ڈائریکٹریٹ، مدارس کی رجسٹریشن سمیت ان کے لیے سہولت سینٹر کی طرح کام کرے گا‘۔
شفقت محمود نے بتایا کہ مدارس کے طلبا و طالبات کو عصرِ حاضر کی جدید تعلیم بھی دی جائے گی اور وفاقی بورڈ کے تحت ان کے امتحانات ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحاد تنظیم المدارس کے مذہبی اسکالرز پہلے ڈائریکٹریٹ کی حمایت کرچکے ہیں۔
وزارت تعلیم کے حکام سے متعدد اجلاس کے بعد اتحاد تنظیم المدارس کے ترجمان نے تمام منسلک مدارس کی رجسٹریشن پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے فریق بننے سے گریز کیا اور کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں جے یو آئی (ف) کے تحت متعدد مدارس فعال ہیں۔
مزید پڑھیں: مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کردیا جائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
دوسری جانب حکومت نے واضح کیا تھا کہ کچھ عرصے بعد تمام غیر رجسٹرڈ مدارس کو غیر فعال کردیا جائے گا۔
اسی سلسلے میں رواں برس اپریل میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) نے ملک بھر کے مدارس کی جیو ٹیگنگ اور رجسٹریشن کی ابتدائی رپورٹ مرتب کی تھی۔
نیکٹا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع تمام مدارس کی جیوٹیگنگ مکمل کرلی گئی ہے جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے فاٹا کے 85 فیصد، سندھ کے 80 فیصد، خیبرپختونخوا کے 75 فیصد اور بلوچستان کے 60 فیصد مدارس کی جیو ٹیگنگ کی گئی تھی۔
نیکٹا رپورٹ سے ایک روز قبل 29 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 1947 میں پاکستان میں مدارس کی تعداد 247 تھی، 1980 میں یہ 2 ہزار 8 سو 61 ہوگئی اور اس کے بعد آج تک یہ تعداد 30 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، ان مدارس کا ایک نظام چل رہا ہے، جس میں 3 طریقے کے مدرسے ہیں جبکہ ان تمام مدارس میں سے 100 سے بھی کم تشدد کی طرف راغب کرتے ہیں۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ پاکستان کے 30 ہزار مدرسے کوئی دہشت گردی یا عسکریت پسندی نہیں کر رہے، 70 فیصد مدارس میں ہر شخص پر ماہانہ ایک ہزار روپے خرچ ہوتے، 25 فیصد مدارس میں 3 سے 5 ہزار فی طالب علم خرچ ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد ایسے ہیں جو ماہانہ فی طالب علم پر 15 سے 20 ہزار خرچ کرتے ہیں اور ان میں بیرون ملک سے پڑھنے کے لیے آئے ہوئے طلبا بھی شامل ہیں۔