وزیرِاعظم صاحب! ثالثی سے زیادہ ووٹرز کو اہمیت دیجیے


سابق بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی نے جب اپنے عشایے پر مدعو پاکستانی مہمان کو یہ نصیحت کی کہ ’جنتا کو مت بھولیے گا‘ تو اس نصیحت کی سادگی نے پاکستانی مہمان کو سوچ میں ڈال دیا۔ وہ سوچنے لگے کہ کھانے کے دوران بھارتی وزیرِاعظم کو یہ بات دہرانے کی کیا ضرورت پیش آئی، وہ اس شش و پنج سے اس وقت باہر نکلے جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ وہ انہیں سیاست کا ایک بنیادی سبق دے رہی ہیں۔
وہ جانتی تھیں کہ مغرب اور روس بھلے ہی انہیں دیوی آف ڈیموکریسی (جمہوریت کی دیوی) کے طور پر کتنا ہی پوجتے ہوں لیکن ان کے پاس طاقت ہے تو اپنے ووٹروں کی وجہ سے ہے، اُن ممالک کی بدولت نہیں۔
دیگر رہنما اس قدر محتاط نہیں رہے ہیں۔ متعدد بلکہ بہت سارے رہنما تو یونانی قصوں کے اس کووے کی مانند رہے ہیں جو خوشامد اور چاپلوسی کی زد میں آ کر اپنا ہی نقصان کر بیٹھا تھا۔
امریکی صدر رچرڈ نکسن سمجھتے ہیں کہ انہیں بین الاقوامی سیاست کے بارے میں دلچسپ اور گہری آگاہی اس وقت حاصل ہوئی جب بطورِ نائب صدر انہیں دنیا کا چکر لگانے کا موقع ملا۔ پھر بطورِ صدر انہوں نے روس کے ساتھ تعلقات ٹھیک کیے، شمالی ویتنام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔
دیگر رہنما بھی اسی نقشِ قدم پر چلنے سے خود کو روک نہ پائے۔ وزیرِاعظم مارگریٹ تھیچر نے یورپی یونین کے حوالے سے پالیسیوں کی اس قدر زبردست انداز میں پیروی کی کہ ہاؤس آف کامنز میں ان کے اپنے ساتھی خود کو نظر انداز ہوتا ہوا محسوس کرنے لگے تھے۔ حالانکہ (وہ اس سے پہلے ہی انہیں غیر اہم محسوس کروا چکی تھیں۔)
آخر میں ہوا یہ کہ ہاؤس آف کامنز میں انہیں عدم اعتماد کی تحریک لاکر عہدے سے نہیں ہٹایا گیا بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کنزرویٹو پارٹی میں موجود سازش کاروں کے ذریعے انہیں فارغ کردیا گیا۔ تھیچر کے ساتھیوں کو محسوس ہوا کہ وہ ویسٹ منسٹر سے بہت زیادہ آگے جاچکی تھیں۔ پھر کئی سال بعد تھیریسا مے کو اپنے ہی پکے ساتھیوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا۔
ان کے پیش رو ہیرولڈ میک میلن کبھی پیٹر سیلرز کے لیے طنز و مزاح کا موضوع ہوا کرتے تھے۔ وہ میک میلن کی نقل اتارتے ہوئے یہ کہتے کہ ’گریٹ بریٹین یورپ میں ایک ایسے اہم مقام پر واقع ہے جہاں سے وہ ایماندار بروکر کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس سے زیادہ ایماندار نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی بروکر نہیں بن سکتا۔‘
یہی بات پاکستان پر بھی صادق آتی ہے۔ خطے میں پاکستان ایسے مقام پر واقع ہے جہاں سے وہ ایماندار بروکر کے طور پر اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، ظاہر ہے اب وزیرِاعظم عمران خان سے زیادہ ایماندار کون ہوگا اور کوئی بھی ملک بروکر بن ہی نہیں سکتا۔
وزیرِاعظم عمران خان کا مشن ہے کہ آتش مزاج نو دولتیے کھرب پتی عربوں اور کورش اعظم کے وارثوں کے درمیان امن قائم کیا جائے۔ اگر یہ مشن کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کامیابی کے پیچھے 3 باپ ہوں گے، سعودی عرب، ایران اور وہ خود اور اگر مشن ناکام ہوجاتا ہے تو اس یتیم مشن کو انہیں تن تنہا ہی پالنا پڑے گا۔
کیا کسی کو 2018ء میں بطورِ وزیرِاعظم عمران خان کی پہلی تقریر یاد ہے؟ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تعلیمی بحران کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے گا (واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی 2013ء میں یہی الفاظ استعمال کیے تھے) اور ان کی حکومت اسکول سے باہر 2 کروڑ 25 لاکھ بچوں کو بہتر اسکولوں میں داخل کروائے گی۔ یا پھر وزیرِاعظم ہاؤس کو اعلی معیار کی حامل ریسرچ یونیورسٹی میں بدلنے کا وعدہ کسی کو یاد ہے؟
یہ سب کچھ ضرور ہوگا، لیکن صرف اس وقت جب ہمارے سربراہانِ ریاست سرکاری دوروں پر جانا اور وہاں اپنی ثالث کاری کی منت سماجت کرنا بند کریں گے۔
یہ مضمون 17 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔