وزارت داخلہ کا جے یو آئی (ف) کی فورس 'انصار الاسلام' کےخلاف کارروائی کا فیصلہ
اسلام آباد: وزارت داخلہ نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس 'انصار الاسلام' کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔
وزارت داخلہ نے انصار الاسلام فورس کے خلاف کارروائی کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری لے لی۔
وفاقی حکومت نے آرٹیکل 146 کے تحت وزارت داخلہ کو صوبوں سے مشاورت کا اختیار دے دیا۔
وزارت داخلہ کی جانب سے وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی سمری میں کہا گیا آرٹیکل 256 اور 1974 ایکٹ کے سیکشن 2 کے تحت انصار الاسلام پر پابندی عائد کی جائے گی اور مشاورت کے بعد وفاقی حکومت، وزارت داخلہ کے ذریعے صوبوں کو انصار الاسلام کے خلاف کارروائی کا اختیار سونپے گی۔
وفاقی حکومت کی ہدایت پر مکمل عملدرآمد کے لیے صوبوں کو ہر قسم کی کارروائی کا اختیار ہوگا۔
سمری میں کہا گیا کہ حساس اداروں کی رپورٹس کے مطابق جے یو آئی (ف) نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کے شرکا کی سیکیورٹی کے نام پر ایک مسلح تنظیم تشکیل دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) 7 دن بھی دھرنا جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، وزیراعظم
یہ مسلح تنظیم بظاہر حکومت کی رٹ چیلنج کرنا چاہتی ہے جس کے رضاکاروں نے خاردار تاروں سے لیس لاٹھیاں اٹھا کر پشاور کے ورکرز کنونشن میں ریہرسل اور مارچ پاسٹ کیا جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیلا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ ورکرز کنونشن میں مسلح فورس قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکرانے کی تیاری کرتی نظر آئی اور80 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل مسلح فورس کے آزادی مارچ کے موقع پر امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
سمری میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل 256 مسلح تنظیم بنانے سے روکتا ہے اور مسلح فورس کے طور پر 'انصار الاسلام' کا قیام اس آرٹیکل کی خلاف ورزی ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ انصار الاسلام فورس کا اسلحے سے لیس ہونا بھی خارج از امکان نہیں لہٰذا اس کی سرگرمیاں اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔
سمری میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے مطابق کسی مسلح تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جبکہ پرائیویٹ ملٹری آرگنائزیشن ایکٹ 1974 کے تحت وفاقی حکومت مسلح تنظیم کو ختم کرنے کی ہدایت کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ سے قبل ہی مدارس کی نگرانی شروع
واضح رہے کہ چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی فورس 'انصار الاسلام' کے دستے کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان محافظ دستے سے سلامی لیتے نظر آئے تھے۔
ویڈیو وائرل ہونے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بھی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ملیشیا فورس کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔