ایف اے ٹی ایف کیا ہے اور پاکستان کی معیشت سے اس کا کیا تعلق ہے؟
جس خبر کا پاکستان کو شدت سے انتظار تھا وہ فرانس کے شہر پیرس سے بالآخر آگئی۔
پردیس سے آنے والی اس خبر کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کے حوالے سے اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی یعنی پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے تو بچ گیا البتہ واچ لسٹ یا گرے لسٹ سے جان نہیں چھڑا سکا۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر شیالگمن لو نے میڈیا کو پاکستان کے بارے میں ٹاسک فورس کے فیصلوں پر مفصل بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ،
‘پاکستان جون 2018ء سے گرے لسٹ میں ہے۔ پاکستان ایک ایکشن پلان پر متفق ہوا تھا، تاہم اس کی پیش رفت ناکافی ہے۔ ایکشن کا مقصد منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ روکنے کے نظام میں موجود خامیوں کو ختم کرنا تھا۔ پاکستان نے اعلیٰ سطحی پر یقین دہانیوں کے باوجود کوئی بڑی پیش رفت نہیں کرسکا ہے اور ایکشن پلان کی ڈیڈ لائن ختم ہوچکی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت میں پاکستان نے اس معاملے پر کچھ ٹھوس پیش رفت ضرور کی ہے جس کا ایف اے ٹی ایف خیر مقدم کرتی ہے لیکن اب تک بیشتر نکات پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف پاکستان کی جانب سے ان معیارات پر پورا نہ اترنے سنجیدگی سے لے رہا رہا ہے لہٰذا پاکستان کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ وہ فروری 2020ء تک اپنے مکمل ایکشن پلان کو تیزی سے پورا کرے۔ اگر ٹھوس پیش رفت نہ کی گئی تو ایف اے ٹی ایف سخت ایکشن لے گا جس کے نتیجے میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں مالیاتی اداروں کو ہدایت کی جائے گی کہ پاکستان کے ساتھ کاروباری تعلقات قائم کرنے اور لین دین کے حوالے سے خصوصی توجہ دیں۔‘
ایف اے ٹی ایف کے جاری کردہ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان نے اب تک 27 ایکشن نکات میں سے بڑے پیمانے پر صرف 5 پر عمل کیا جبکہ باقی ایکشن پلان پر کی گئی پیش رفت کی سطح مختلف ہیں‘۔