جے یو آئی (ف) 7 دن بھی دھرنا جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے ’ آزادی مارچ ‘ سے پریشان نہیں اور جے یو آئی (ف) ایک ہفتے کے لیے بھی دھرنا جاری رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومتی اداروں اور اعلیٰ عہدوں پر موجود علما و مشائخ سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے تجویز کردہ مارچ سے کسی دباؤ کا شکار نہیں ہیں۔
وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے علما میں اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی)، متحدہ علما بورڈ، پنجاب اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اراکین شامل تھے۔
اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ اجلاس مولانا فضل الرحمٰن کے احتجاجی مارچ سے متعلق حمایت کے لیے نہیں بلایا گیا، میں نے کئی احتجاج دیکھے ہیں اور یہاں تک کہ 126 روز تک جاری رہنے والے دھرنے کی قیادت بھی کی ہے‘۔
مزید پڑھیں: شہباز شریف نے جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کردیا
واضح رہے کہ 16 اکتوبر کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا تھا کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا تاکہ استعفے کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات کیے جاسکیں’۔
مزید پڑھیں: استعفے سے پہلے مذاکرات نہیں ہوسکتے، مولانا فضل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بھی کہا تھا کہ 'آزادی مارچ' اب 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوگا جبکہ 27 اکتوبر کو کشمیریوں کے ساتھ 'یوم سیاہ' منائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اکتوبر کو ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے یوم سیاہ منائیں گے، اس روز ریلیاں نکالی جائیں گی، یوم سیاہ کے بعد کارکان اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ’میں ریاست مدینہ کے ماڈل پر پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانا چاہتا ہوں اور یہی میری زندگی کا مقصد ہے‘۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وہ سابق حکمرانوں کی طرح سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کا نام استعمال نہیں کررہے‘۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ملک میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے خاص طور پر جن مسائل کا قوم کو سامنا ہے اس میں علمائے کرام کا خاص کردار ہے‘، میں مذہبی علما سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں ان سے معاونت چاہی ہے تاکہ حکومت اپنے مقاصد حاصل کرسکے۔
یہ بھی پڑھیں: 'سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجنے کیلئے فیصلہ کن سیاست کا وقت آگیا ہے'
اس موقع پر عمران خان نے ملک کے دور دراز علاقوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں میں تعلیم پھیلانے میں مدارس کے کردار کو سراہا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’نظام تعلیم اور نصاب میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں مذہبی علما کا تعاون انتہائی ضروری ہے‘۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم نے ایران اور سعودی عرب کے دوروں سے متعلق بھی علما کو اعتماد میں لیا۔
دورے کے مثبت نتائج سے متعلق اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’ہم دو مسلمان ممالک کے دوران کشیدگی کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔
خیال رہے کہ چند روز قبل واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ایران کاایک روزہ دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہم برادر اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین تنازع نہیں چاہتے، تصادم کی صورت میں خطے میں غربت اور تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوگا اور اس کے پیچھے مفاد پرست خوب فائدہ اٹھائیں گے۔
بعدازاں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی اور ایران کے ساتھ تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں پر زور دیا تھا۔