لاڑکانہ کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ فقط انتخابات کی وجہ سے یہاں موجود ہیں، وہ کبھی بھی ایک ساتھ اتنا طویل عرصہ لاڑکانہ میں نہیں رہے۔ ان کے پاس رہنے کے لیے جو گھر ہے اس پر بھی میونسپل کا کوئی تنازعہ ہے۔ انتخابات میں جن 2 گھروں کو جمیل سومرو نے ٹھکانا بنایا ہے وہ بھی ان کے اپنے نہیں ہیں۔ ایک ان کے انجینئر دوست کا ہے جسے 18ویں گریڈ میں ہوتے ہوئے بھی 19ویں گریڈ کا چارج دلایا گیا ہے۔ دوسرا بھی کسی ایسے زمیندار کا بنگلہ ہے جس نے مستقبل میں سینیٹر بننے کے آسرے پر زمین بیچ کر جمیل سومرو کی انتخابی مہم چلائی ہے۔
جمیل سومرو کے کچھ دوستوں کے بقول ان کا پیپلز پارٹی سے تعلق کافی پرانا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جمیل سومرو جماعت میں کسی یونین کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن یا صوبائی تنظیم کے عہدیدار کب رہے ہیں؟ ہمارے جیالے دوست ذوالفقار قادری کسی زمانے میں جمیل سومرو کے بھی دوست رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جمیل سومرو کامریڈ احمد علی سومرو مرحوم کے بندے تھے۔ احمد علی سومرو وہ جیالے تھے جو 1978ء میں شاگرد یونین کے انتخابات میں ڈگری کالج لاڑکانہ کے صدر بن گئے۔ جمیل سومرو بعد میں سندھ یونیورسٹی میں آگئے مگر ان کے پاس سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (سپاف) کا کوئی عہدا نہیں تھا اور وہ محض کارکن کہلائے جاتے تھے۔
جنرل ضیاالحق کے دور 1985ء میں جب وڈیرے، سردار، ملک، نواب سب پیپلز پارٹی سے منہ موڑنے لگے تو احمد علی سومرو کے ساتھ جمیل سومرو بھی سپاف چھوڑ کر ممتاز بھٹو کی نئی پارٹی سندھی، بلوچ پشتون فرنٹ میں چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد ممتاز بھٹو کی جماعت کے شاگرد تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹ فرنٹ بنی جس کے صدر ثمر علی شاہ بنے اور جمیل سومرو سیکریٹری جنرل کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ کچھ ہی وقت میں جمیل سومرو اسٹوڈنٹ ونگ کے صدر بن گئے۔
اس دور کے ایک سرگرم شاگرد کارکن کا تو کہنا ہے کہ پرانے سیاسی ورکر ثمر علی شاہ اور ممتاز بھٹو کے بیچ غلط فہمی پیدا کرنے والا کوئی اور نہیں جمیل سومرو تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد ثمر علی شاہ آوٹ ہوگئے اور جمیل سومرو اسٹوٖڈنٹ ونگ کے صدر بن گئے۔
10 برس بعد یعنی 1995ء میں جمیل سومرو پھر احمد علی سومرو کے ساتھ پیپلز پارٹی میں واپس آگئے۔ کراچی کے کچھ سیاسی صحافتی حلقوں کی معرفت کے سبب انہیں بلاول ہاؤس تک رسائی مل گئی۔ ان کی ڈیوٹی میں یہ شامل تھا کہ وہ بلاول ہاؤس میں تمام اخبارات کی کٹنگز کی ایک فائل بنائیں۔ وہ فائل بینظیر بھٹو تک جاتی تھی۔ پھر بعد میں جمیل سومرو سندھی میڈیا کے حوالے سے کوآرڈینیٹر کم مانیٹر انچارج بن گئے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت جمیل سومرو کے سپرد کردی گئی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں۔ جمیل سومرو کی اس وقت ڈیوٹی فقط بلاول بھٹو کی تقریر یا پریس کانفرنس کے دوران ان کے پیچھے سائے کی طرح کھڑا ہونا ہے۔ مجھے جمیل سومرو کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ اب بھی بلاول ہاؤس سے ان کو تنخواہ ملتی ہے۔
پیپلز پارٹی کو شکست آخر کیوں ہوئی؟ اب آتے ہیں اس معاملے کی طرف کہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی شکست آخر کیسے ہوئی؟ اس کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔ سب سے بڑا سبب یہ کہ پی ایس 11 کے لیے پیپلز پارٹی نے مناسب امیدوار نامزد نہیں کیا۔ امیدوار کے لیے یہ صرف ضروری ہونا کافی نہیں کہ اس کا ڈومیسائل انتخابی حلقے کا ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے حلقے میں لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ امیدوار کے انتخاب سے متعلق پیپلز پارٹی نے فیصلہ عجلت میں کیا ہے یا پھر مقامی سیاست میں اندرونی تنازعات کے باعث کسی امیدوار پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں کمزور گھوڑا میدان میں اتار دیا گیا۔ حالانکہ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لوگ کھمبے کو بھی ووٹ کردیں گے۔
اس مرتبہ جمیل سومرو پیپلز پارٹی کا کھمبا تھا لیکن وہ نتیجے کے دن گرگیا۔ اس بار پیپلز پارٹی کی شکست پر حیرت اس لیے بھی ہورہی ہے کہ یہ ضمنی انتخابات تھے۔ عمومی طور پر مقامی لوگ ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی کے امیدوار کو جتوانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے علاقے میں کام ہوتے رہیں۔ پھر حکمران جماعت بھی اپنے پتے چلاتی ہے، مقامی انتظامیہ ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، لیکن اس بار تو پیپلز پارٹی ہر طرف سے خالی ہاتھ رہی۔
یہ انتخاب عام انتخابات سے اس لیے بھی مختلف تھے کہ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پورا وقت اس حلقے اور شہر کو دیا۔ جلسے، مہم، کارنر میٹنگز سب کچھ کیا لیکن نتیجہ صفر رہا، اور تو اور بی بی آصفہ بھٹو زرداری بھی اسی حلقے کے گھر گھر میں اپنے بھائی کے پولیٹیکل سیکرٹری کے لیے ووٹ مانگتی رہیں۔
پیپلز پارٹی کو اپنا گھر بھی صاف رکھنا چاہیے کیونکہ اندر سے جو آوازیں آرہی ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ہمارے انتخابی نظام میں ذات برادری کا بڑا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ ہم کوئی اتنے جمہوری نہیں ہیں کہ اس اثر و رسوخ سے نکل سکیں۔ اس شکست کا ایک سبب لاڑکانہ میں پارٹی کی دھڑا بندی، گروپ بندی یا جو کچھ کہہ لیں وہ موجود ہے۔
لاڑکانہ شہر کی صورتحال خراب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا وعدہ تو 50 سال بعد بھی پورا نہیں ہوسکا، لیکن افسوس کہ یہ ایک ایسا عام شہر بھی نہ بن سکا جہاں انسان سکون سے زندگی گزار سکے۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کہ وجہ سے لاڑکانہ ڈویژن میں ایک نہیں کئی موہن جو دڑو بن چکے ہیں۔
ابراہیم کنبھر
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔