افسانہ: جنگ میں پرندے گیت نہیں گاتے

جنگ میں آبادی کے اعداد و شمار
’میں نے تمہیں 40 سال پہلے دیکھا تھا، اس وقت تمہارے بال سیاہ اور مونچھیں لمبی تھیں۔ تم ہمارے گاؤں میں مقامی آبادی کی گنتی کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے جو ان دنوں گاؤں کے اسکول میں رہائش پذیر تھی۔
پھر انہی دنوں جنگ چِھڑ گئی اور گاؤں میں ہروقت سائرن بجتے رہتے۔ آخری بار میں نے تمہیں سائرن بجنے سے پہلے دیکھا تھا جب تم گلی کا موڑ مُڑرہے تھے۔ ہم سب گھر والے تہہ خانے میں چُھپ گئے تھے اور ریڈیو پر جنگ کے بارے میں خبریں سنتے رہتے۔ ان خراب حالات کے باوجود میں تہہ خانے میں تمہارے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ پھر جب جنگ ختم ہوئی تو آبادی کی تعداد وہ نہ رہی جو جنگ سے پہلے تھی اور تمہارے اعداد و شمار سب غلط ہوگئے جن کو ٹھیک کرنے کے لیے تم نہیں تھے۔‘
بُڑھیا ایک قبر کے کتبے سے گفتگو کرکے واپسی کے لیے مُڑ گئی۔
ایٹم بم اور روٹی
جب جنگ کے سائرن بجے تو ایک اسکول میں استاد نے بچوں سے کہا کہ بچوں گھبرانے کی ضرورت نہیں، جنگ سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ہمارے پاس ایک ایسا طاقتور ایٹم بم ہے جو چند منٹوں میں دشمن کو صفحہءِ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔
کلاس میں موجود ایک بھوک سے نڈھال بچہ کہ جس کے یونیفارم کی شرٹ کے بٹن ٹوٹے اور جوتے پھٹے ہوئے تھے، حیرت سے استاد کی بات سُن رہا تھا۔ پھر اس نے ہمت مجتمع کرکے پوچھا
’استادِ محترم! کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم یہ ایٹم بم بیچ کر بہت سی روٹیاں اور کپڑے خرید لیں؟‘
’بدتمیز! دفع ہوجاؤ یہاں سے،‘ استاد کو اچانک غصہ آگیا۔
جنگ میں کھیتی باڑی
وہ ایک غریب کسان تھا اور اس نے اس بار قرض لے کر فصل کی بوائی کی تھی۔
’اس بار فصل بہت اچھی ہوئی ہے، سب قرض واپس لوٹا دوں گا،‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا جو اس کے ساتھ فصل پک جانے کی منتظر تھی۔
وہ میاں بیوی ایک ایک دن گِن کر گزار رہے تھے۔ پھر ایک روز جہاز ان کے کھیت پر بم پھینک کر چلے گئے۔
’وہ جہاز نے ہمارے کھیت پر بم پھینک دیا ہے،‘ اس نے بیوی سے روتے ہوئے کہا۔
’نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ کیا سب کچھ جل گیا؟‘
’ہاں سب۔ میں اس وقت کافی فاصلے پر تھا، کاش میں اس وقت کھیت میں ہی ہوتا۔‘
جنگ میں پرندے گیت نہیں گاتے
’چھپ جاؤ، چھپ جاؤ، اس سے پہلے کہ دشمن تمہیں دیکھے، تم سب اپنے تاریک کمروں میں چھپ جاؤ۔‘
’ابّا دریا کے پانیوں پر اُترتے پرندے اب کہاں ہوں گے؟ کیا وہ ابھی بھی گیت گارہے ہوں گے؟‘
’جنگ میں پرندے گیت نہیں گاتے میرے بچے‘، ابّا نے انتہائی دُکھ بھرے لہجے میں یہ بات سمجھائی۔
ایک وقت، دو کہانیاں
کچھ دیر بعد اس نے ہر جوتے کو باری باری چوم کر آنکھوں سے لگایا۔
’جان تھک گئے ہو؟‘، بیوی نے فوراً پوچھا۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔