پاکستان

عدالتی نظام سے لوگوں کا اعتماد ختم ہورہا ہے، جسٹس عامر فاروق

اخلاقی اصولوں کی پامالی کے نیتجے میں بحران پیدا ہو رہا ہے، جج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں اخلاقی اصولوں کی پامالی کی وجہ سے لوگوں کا عدالت سے متعلق تمام معاملات پر اعتماد ختم ہورہا ہے۔

اخلاقی اقدار سے متعلق ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وکلا کو ایسے رویے سے گریز کرنا چاہیے جس سے لوگوں کی نظروں میں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے‘۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالتوں کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں، سینیٹ کمیٹی

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عدالتی نظام پر لوگوں کا اعتماد ضروری ہے لیکن سائلین کا اس نظام سے بتدریج اعتماد ختم ہورہا ہے کیونکہ مذکورہ نظام بعض خامیوں کے باعث صحیح طرح کام نہیں کر پارہا۔

جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ’چیمبر کا حصہ بننے والے نئے وکلا کو چاہیے کہ وہ ناصرف قانون کی پریکٹس کریں بلکہ اخلاقات بھی سیکھیں، جس طرح وکلا عدالت اور سائلین کے ساتھ معاملات رکھتے ہیں، یہ پریکٹس کا حصہ نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اخلاقیات اپنے گھر، چیمبر اور کمرہ عدالت میں سیکھتے ہیں‘۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نے کہا کہ انصاف کے منتظر سائلین سے وکلا فیس وصول کرتے ہیں اس لیے انہیں گمراہ نہ کیا جائے اور وکلا کو عدالتی وقت بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے کیونکہ عدالتوں کے اخراجات عوام کے پیسوں سے پورے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی آن لائن سماعت

مغربی ممالک کے عدالتی نظام سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکلا کو اپنے مقدمے میں دلائل مکمل کرنے کے لیے مخصوص وقت دیا جاتا ہے اور اسی متعین وقت کے اندر ہی تمام مراحل کو یقینی بنانا پڑتا ہے ورنہ عدالتی وقت برباد کرنے پر بھاری جرمانہ عائد ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے‘۔

کیس مینجمنٹ کے امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وکلا کو کیس ڈائری مرتب کرنی چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ برطانیہ میں وکلا کو ایک دن میں متعدد کیسز کا سامنا ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جونیئر وکیل مقدمے کی سماعت ملتوی کراتے ہیں اور سینئر قونصل دوسری عدالتوں میں مصرف ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ویڈیو لیک تنازع: پاکستان بار کونسل کی چیف جسٹس سے از خود نوٹس کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا پر بیان دیتے وقت وکلا کو بہت احتیاط کرنی چاہیے، ’آپ جج نہ بنیں اور کچھ ایسا نہ کہیں جو توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہو‘۔

انہوں نے پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد کونسل پر وکلا سے متعلق پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق میں بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔


یہ خبر 17 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی