استعفے سے پہلے مذاکرات نہیں ہوسکتے، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کے حوالے سے کہا ہے کہ استعفے سے پہلے کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران آزادی مارچ کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ‘مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا تاکہ استعفے کے بعد کی صورت حال پر مذاکرات کیے جاسکیں’۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی کی تشکیل دینے سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہ ہی ہمارے ساتھ کوئی رابطہ ہے، مذاکرات سے پہلے استعفیٰ ضروری ہوگا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘استعفے پر کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے’۔
قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:فضل الرحمٰن سے مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں، شاہ محمود قریشی
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ شروع کرنے کے حوالے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کی سربراہی میں پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں ہم نے چند سیاسی فیصلے کیے، ہم سیاسی جماعت ہیں اور سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت اور جذبہ رکھتے ہیں جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے پرویز خٹک کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات کے لیے مختصر کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سیاسی جماعتوں کو سیاسی رویے اپنانے چاہیئں، مولانا فضل الرحمٰن کی کسی سیاسی بات میں وزن ہوا تو ہم سننے کو تیار ہوں گے اور اگر کوئی معقول راستہ نکل سکتا ہے تو ہم وہ راستہ نکالنے کو ترجیح دیں گے، یہ اس لیے نہیں کہ ہمیں کسی قسم کا خوف ہے'۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ 'میں واضح الفاظ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی کو غلط فہمی ہےکہ کسی کی آمد اور دھرنے سے حکومتیں چلی جاتی ہیں تو ہمارا تجربہ اس سے زیادہ ہے'۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'اگر کسی معاملے کا سیاسی حل نکل سکتا ہے تو ہمیں اس طرف دیکھنا چاہیے'۔
یہ بھی پڑھیں:دوسرا آپشن نہیں چھوڑا، ان ہاؤس تبدیلی ہمارا درد سر نہیں، مولانا فضل الرحمٰن
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کے دوران واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لیکن بات وہاں پہنچ جاتی ہے تو امکانات ختم ہوتے ہیں تاہم اگر وہ استعفیٰ دینے کے اصول پر آتے ہیں تو پھر آگے کیا کرنا ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘استعفیٰ اور اس مطالبے کو تسلیم کیے بغیر وہ یہ سمجھیں کہ ہم مذاکرات کریں گے تو قطعاً کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے’۔