چار برس پہلے تک زاریہ عمیر او لیول کی ایک ذہین طالبہ تھیں اور مستقبل میں میڈیکل پروفیشن میں جانے کے لیے پوری طرح پر عزم تھیں مگر پھر اچانک جیسے ان کی زندگی سے خوشیاں، امنگیں اور مستقبل کے خواب سب کچھ ختم ہوتا چلا گیا، او لیول میں ناکامی کے بعد زاریہ نے والد کے اسرار پر جیسے تیسے ایف ایس سی کیا، ڈاکٹر بننے کا خواب بکھر تے ہی وہ شدید مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہوئیں جس کا نتیجہ ڈپریشن کی صورت میں نکلا۔
گزشتہ 2 سال سے زاریہ (فرضی نام) لاہور اور کراچی کی کوالیفائڈ سائیکا ٹرسٹ اور تھراپسٹ کے زیر علاج ہیں اور ان کی سست ریکوری کو دیکھتے ہوئے ان کے والد عمیر مرزا انہیں علاج کے لیے بیرون ملک لے جانے کی تیاریوں میں ہیں۔
مگر یہ صرف ایک 20 سالہ زاریہ کی کہانی نہیں ہے اس جیسی دیگر درجنوں لڑکیاں بھی اس پریشانی سے گزر رہی ہیں، آغا خان یونیورسٹی کراچی کی جانب سے جاری کردہ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ڈپریشن اور اینزائٹی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والے امراض یا مسائل میں شامل ہیں جن کا سب سے زیادہ شکار نوجوان نسل ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے جو زیادہ آبادی والے شہروں جیسے کراچی اور لاہور میں بلند ترین ہے، ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل و بیماریوں کے حوالے سے عالمی ریکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔