پاکستان

افغانستان، پشاور میں قونصل خانے کی بندش کے فیصلے پر نظرثانی کرے، دفتر خارجہ

ہم افغان وزیر خارجہ کی جانب سے پشاور میں مارکیٹ سے متعلق تمام بیانات کو مسترد کرتے ہیں، ڈاکٹر محمد فیصل
|

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے افغانستان سے درخواست کی ہے کہ وہ پشاور میں اپنے قونصل خانے کی بندش کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان مارکیٹ سے متعلق متنازع اراضی کے حوالے سے تمام الزامات کی تردید کی۔

مزید پڑھیں: پشاور: بازار سے پرچم ہٹانے پر افغان قونصل خانہ احتجاجاً بند

دفتر خارجہ کے جاری بیان کے مطابق ’ہم افغان وزیر خارجہ کی جانب سے پشاور میں مارکیٹ سے متعلق تمام بیانات کو مسترد کرتے ہیں‘۔

اس ضمن میں مزید کہا گیا کہ ’یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اس مسئلے اور اس سے متعلقہ واقعات پر مسخ شدہ اور گمراہ کن باتیں کی گئیں‘۔

بیان میں کہا گیا کہ ’مارکیٹ سے متعلق مسئلہ ایک شخص اور افغانستان میں موجود بینک کے درمیان ہے اور اس ضمن میں عدالت نے 1998 میں اس شخص کے حق میں فیصلہ سنایا تھا‘۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اس قانونی مسئلے پر ایک فریق افغانستان کی جانب سے خلاف ورزی کی گئی جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے کارروائی کی۔

دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ 'پاکستان میں عدالتی کارروائی کے خلاف کسی بھی قسم کے بیان کو مسترد کرتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی پرچم نذر آتش کیے جانے کے بعد پاک-افغان بارڈر بند

دفتر خارجہ کی جانب سے اس اُمید کا اظہار کیا گیا کہ پشاور میں قونصل خانے کو دوبارہ کھولنے پر غور کیا جائے گا اور نجی نوعیت کے قانونی مسئلے کو دوطرفہ تعلقات میں دراڑ کا باعث بننے نہیں دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل افغانستان نے مارکیٹ سے قومی جھنڈا اتارنے کے تنازع پر احتجاجاً پشاور میں اپنا قونصل خانہ بند کردیا تھا۔

اس ضمن میں افغان قونصل جنرل محمد ہاشم نیازی نے کہا تھا کہ ’ہم پولیس کی جانب سے مارکیٹ سے افغانستان کا جھنڈا اتارنے کی مذمت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پشاور میں قونصل خانہ غیر معینہ مدت کے لیے بند کررہے ہیں‘۔

خیال رہے کہ 11 اکتوبر کو افغانستان نے پشاور میں موجود قونصل خانہ، جناح پارک میں موجود افغان مارکیٹ سے اپنا پرچم ہٹانے کا الزام لگاتے ہوئے بند کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور میں افغانستان کا پرچم آویزاں کرنے والا افغان شہری گرفتار

قونصل جنرل محمد ہاشم نیازی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی درخواست کے باوجود پشاور پولیس اور مقامی انتظامیہ مارکیٹ میں داخل ہوئی اور مارکیٹ کے اوپر لگا ہوا افغان پرچم اتار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ انہوں (انتظامیہ) نے پرچم کیوں اتارا، افغانستان کی حکومت اس فعل کی سخت مذمت کرتی ہے'۔

افغان مارکیٹ کا معاملہ ہے کیا؟

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں واقع افغان مارکیٹ پر کئی عشروں سے ایک مقامی شخص نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔

دوسری جانب افغان سفارتخانے کا موقف تھا کہ یہ مارکیٹ افغان حکومت نے تقسیم ہند سے پہلے خریدی تھی اور آج تک افغان نیشنل بینک کی ملکیت ہے۔

اس کے حوالے سے افغان مارکیٹ کی انجمن تاجران کے چیئرمین نے بتایا کہ اس مارکیٹ پر سید زوار حسین نامی شخص کی جانب سے ملکیت کا دعوی کیا گیا لیکن اس شخص کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ان کے مطابق سید زوار کے نام پر قبضہ مافیا اس مارکیٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔

مزیدپڑھیں: افغانستان میں القاعدہ جنوبی ایشیا کا سربراہ ہلاک

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 1971 سے اس مارکیٹ پر مذکورہ دعوے دار اور افغان حکومت کے درمیان پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات چلے اور جنوری 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سید زوار حسین کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جو افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی۔

اس حوالے سے افغان سفارتخانے کے حکام کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ پاکستان کا یہ فیصلہ یک طرفہ ہے۔

دوسری جانب شوکت جمال کشمیری، جن کے پاس مدعی کا مختارنامہ ہے، کہتے ہیں کہ سید زوار حسین کے والد کو یہ جگہ 1989 میں اُس جائیداد کے بدلے میں الاٹ کی گئی تھی جو اُنہوں نے پاکستان بننے کے بعد انڈیا میں چھوڑی تھی۔