سفرِ زندگی کی کچھ حقیقتیں
سفرِ زندگی میں اکثر دوراہے آجاتے ہیں، ان دوراہوں پر سوالات کا ایک انبار انسان کو جیسے آگے بڑھنے سے روک دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی پردیسی انجان صحرا میں بھٹک گیا ہے، جس کے پاس نہ منزل کا نقشہ ہے نہ آگے بڑھنے کی ہمت۔
اسی طرح کئی موقعوں پر انسان ان سوالوں کے جواب کی تگ و دو شروع کردیتا ہے اور اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرنے لگتے ہیں کہ اچھائی کا تقاضا کیا ہے؟ محبت اور نفرت کے پیمانے کیا ہیں؟ مروت کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ قدرت کے فیصلے کیا انسان کے بس میں ہیں؟ قلب و ذہن کو کتنا وسیع ہونا چاہیے؟ احساسِ جُرم جیسے زہر کا طریاق کہیں ملتا ہے؟ اختلافات کا باوقار حل کہاں تلاش کروں؟ مشکل گھڑی آن گھیرے تو کہاں جاؤں؟ بدگمانی کے بھٹکاوے سے کیسے بچا جائے؟ کیا نفرت کی شدت محبت کو مات دے دیتی ہے؟ کیا میں لوگوں سے حالتِ جنگ میں ہوں؟ آزادی اور بغاوت کے تصورات کتنے حقیقی ہیں اور کس قدر مصنوعی؟ کیا اب کوئی امید نہ رکھوں؟ بدترین تکبر کا تعین کیسے کروں؟
تو آئیے ان سارے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ظاہر اور باطن
اچھائی اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کا ظاہری و باطنی، دونوں پہلو اچھے ہوں۔