دنیا

ترکی کا شام میں 342 کرد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

کردوں کی جانب سے سرحدی علاقوں میں مارٹر گولے برسائے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں 9 شہری اور 2 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، ترک حکام

ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آکار نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں آپریشن کے آغاز سے اب تک 342 کرد دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

واضح رہے کہ شامی کرد جنگجوؤں کو ترکی دہشت گرد قرار دیتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب شامی مبصر کا کہنا تھا کہ 4 روز سے جاری ترک حملے میں اب تک صرف 8 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

ترکی کے 2 صوبوں کے حکام کا کہنا تھا کہ کرد جنگجوؤں کی جانب سے سرحدی علاقوں میں مارٹر گولے برسائے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں 15 سال سے کم عمر 3 بچیوں اور ایک 9 ماہ کے بچے سمیت 9 شہری اور ترکی کے وزارت دفاع کے مطابق 2 فوجی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: ترکی کے شام میں حملے: عمران خان کی طیب اردوان کو پاکستان کی حمایت کی یقین دہانی

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق تیسرے روز بھی ترکی کی جانب سے شام کی سرحدی علاقوں پر حملے کیے گئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے رواں ہفتے شام سے اپنی فوج واپس بلانے کے احکامات دیے تھے، کا کہنا ہے کہ واشنگٹن عارضی صلح کی کوششیں کرے گا۔

اس سے قبل امریکی صدر نے ترکی کے حملے کو ان کا غلط فیصلہ قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن شروع کردیا

ترکی نے شام میں فوجی آپریشن کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا، جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

کرد جنگجو شام میں امریکی اتحادی تھے اسی لیے ٹرمپ کے اچانک فیصلے کو واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا گیا۔

ٹرمپ کے فیصلے کو کرد جنگجوؤں نے بھی ‘پیٹھ میں چھرا گونپنے’ کے مترادف قرار دیا تھا، تاہم امریکی صدر نے اس تاثر کو رد کردیا۔

مزید پڑھیں: شام: ترکی کے کرد ٹھکانوں پر حملے، 8 جنگجوؤں سمیت 15 افراد ہلاک

خیال رہے کہ ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو 'دہشت گرد' ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔

شام میں فوجی کارروائی کے تازہ سلسلے پر متعدد ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ اس سے خطے کے بحران میں اضافہ ہوگا، تاہم ترکی کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد خطے کو محفوظ بنانا ہے تاکہ لاکھوں مہاجرین کو شام واپس بھیجا جاسکے۔