پاکستان

افسوس! ممالک کے لیے انسانوں سے زیادہ پیسہ اہم ہے، عمران خان

مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے80لاکھ انسانوں کو بند کیا ہوا ہے لیکن عالمی میڈیا میں اس کی کوریج نہ ہونے کےبرابر ہے، وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ممالک کے لیے انسانوں سے زیادہ پیسہ اہم ہے اور جبھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو عالمی میڈیا میں کوریج نہیں دی جارہی۔

اسلام آباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے کے موقع پر موجود شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج یہاں ہم اس لیے جمع ہیں کہ کشمیریوں کو پیغام دیں کہ پاکستانی قوم کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم بار بار دنیا کو یہ پیغام دیں گے کہ 80 لاکھ انسانوں کو بھارت کی فوج نے کرفیو میں بند کیا ہوا ہے، جسے 2 ماہ سے زیادہ ہوگیا ہے، عالمی میڈیا ہانگ کانگ کے احتجاج کو فرنٹ پیج، شہ سرخی اور خبروں میں بیان کررہا ہے کہ وہاں ایک جمہوری تحریک چل رہی ہے جبکہ وہاں تھوڑے لوگ زخمی ہوئے اور 2 سے 3 لوگ مارے گئے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں سختی

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ لوگوں کو ہی بند نہیں کیا، بچے، بوڑھے، خواتین، بیمار سب لوگ بند ہیں اور عالمی میڈیا میں اس کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے، گزشتہ 30 سال میں کم از کم ایک لاکھ کشمیریوں کی شہادت ہوئی کیونکہ وہ اپنا وہ حق مانگ رہے ہیں جو عالمی برادری، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے دیا تھا اور وہ حق خودارادیت ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کشمیریوں کو حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کریں گے لیکن وہ حق نہ ملنے پر احتجاج کرتے ہیں، جس پر بھارتی فوج ظلم کرتی ہے لیکن بھارتی ظلم کی یہ داستانیں کبھی کبھی عالمی اخباروں میں آتی ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ آج دنیا کے سامنے اس 'دہرے معیار کو سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک جانب ایک خطے میں ہونے والے مظاہروں کو اتنا دکھایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب اتنا ظلم ہورہا اور اسے نہیں دکھایا جاتا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ تو چین کا حصہ ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر تو بھارت کا حصہ بھی نہیں ہے وہ تو ایک متنازع علاقہ ہے۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افسوس سے یہ کہنا پڑ رہی ہے کہ یہاں دنیا یہ دیکھتی ہے کہ ایک ارب افراد سے زائد کا ایک ملک ہے، جس سے تجارت ہوسکتی ہے اور ممالک کے لیے پیسہ انسانوں سے زیادہ اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس! مقبوضہ کشمیر میں اتنا ظلم ہورہا ہے لیکن میڈیا پر اس کی اتنی کم کوریج ہے لیکن میں اپنی قوم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اللہ نے انسان کے ہاتھ میں کوشش دی ہے کامیابی اللہ دیتا ہے۔

کشمیروں سے اظہار یکجہتی کے لیے موجود لوگوں سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، ہماری پوری قوم کوشش کرے گی اور کشمیریوں کو بتائیں گے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، انشااللہ ہماری یہ تحریک سمندر بن جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک تحریک، جدوجہد ہے، نریندر مودی نے جو حماقت کی ہے اور اپنا آخری پتہ کھیل دیا ہے، کشمیر کے لوگ جس انتہا پر پہنچ گئے ہیں ان کو موت کا خوف ختم ہوچکا ہے، جیسے کرفیو اٹھے گا لاکھوں کشمیری سڑکوں پر نکلیں گے اور میرا ایمان ہے کہ یہ راستہ کشمیریوں کی آزادی کا ہے۔

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی

عوام کی بڑی تعداد کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے موجود تھی—اسکرین شاٹ

قبل ازیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکلی اور اس سلسلے میں ایک ریلی بھی نکالی گئی، جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی بھی شریک ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کے باعث محصور ہونے والے مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی، جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان خود بھی شریک تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: 'کرفیو، مواصلاتی بندش کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں'

عمران خان کی کال پر نہ صرف اسلام آباد بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔

مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے موجود عوام کی بڑی تعداد نے ہاتھوں میں پاکستان کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کا جھنڈا بھی تھاما ہوا تھا۔

بھارتی اقدام اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کے بھارت کے یکطرفہ اقدام کے بعد صورتحال المناک ہے اور 2 ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وادی سے بھارتی لاک ڈاؤن اور کرفیو کو نہیں ہٹایا گیا۔

بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا جبکہ مذکورہ فیصلے کے باعث کشیدگی کے خطرے کے پیشِ نظر وادی میں مزید ہزاروں بھارتی فوجیوں کو تعینات کردیا گیا تھا۔

5 اگست کو بھارت کی جانب سے ختم کیا گیا آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت فراہم کرتا تھا۔

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کو ’نظر انداز‘ کرنے پر وزیراعظم کی عالمی میڈیا پر تنقید

تاہم زمینی حقائق کے مطابق عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں، خاص طور پر نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

اس کے علاوہ بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں، علاوہ ازیں 80 لاکھ کی آبادی پر مشتمل وادی میں مواصلاتی نظام موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سخت اقدامات کرنے کے 2 ماہ بعد وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی جانیں جاچکی ہیں۔