مقبوضہ کشمیر کو ’نظر انداز‘ کرنے پر وزیراعظم کی عالمی میڈیا پر تنقید
وزیراعظم عمران خان نے ہانگ کانگ میں جاری مظاہروں کے کوریج کے مقابلے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو مناسب توجہ نہ دینے پر عالمی میڈیا پر تنقید کی۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں حیران ہوں کہ عالمی میڈیا ہانگ کانگ کے مظاہروں پر تو شہ سرخیاں جماتا ہے مگر کشمیر میں انسانی حقوق کے سنگین بحران سے نظریں چرا لیتا ہے‘۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا جبکہ مذکورہ فیصلے کے سبب کشیدگی کے خطرے کے پیشِ نظر وادی میں مزید ہزاروں بھارتی فوجیوں کو تعینات کردیا تھا۔
اس بارے میں وزیراعظم کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ ’کشمیر عالمی طور پرتسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے، بھارت نے9 لاکھ فوجیوں کے مدد سے 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرکے اس پر غیرقانونی قبضے کی کوشش کی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'
کشمیر کی جاری لاک ڈاؤن کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2 ماہ سے زائد عرصے سے ذرائع ابلاغ کی مکمل تالہ بندی جاری ہے اور بچوں، سیاسی قائدین سمیت ہزاروں افراد کو قید میں ڈال دیا گیا جس کے باعث کشمیر میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کشمیریوں کی حق خودارادیت کا سلامتی کونسل کی قرادادوں کے ذریعے وعدہ کیا گیا تھا لیکن گزشتہ 3 دہائیوں میں اس حق کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک لاکھ کشمیری قتل کیے جاچکے ہیں‘۔
انسانی ہاتھوں کی زنجیر
قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے محصور عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے وزیراعظم عمران خان آج (بروز جمعہ) انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے میں حصہ لیں گے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: 'کرفیو، مواصلاتی بندش کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں'
یہ زنجیر جمعے کی نماز کے بعد بنائی جائے گی جس کا آغاز ڈی چوک سے ہوگا جبکہ وزیراعظم اپنے دفتر کے گیٹ نمبر ایک پر اس زنجیر کا حصہ بنیں گے۔
اس بارے میں پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی نے پارٹی کارکنان کو ڈی چوک پہنچ کر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے میں حصہ لینے کی ہدایت کی۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام 2 ماہ سے محصور
یاد رہے کہ بھارت نےمقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج بھیج کر لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ خطے کی اہم سیاسی شخصیات کو قید کرنے کے بعد 5 اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
آرٹیکل 370 کے نفاذ کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: '5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 722 احتجاجی مظاہرے ہوئے'
زمینی حقائق کے مطابق عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے 4 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں اور پولیس نے ہتھیاروں کی برآمدگی کا بھی دعویٰ کیا۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں میں سختی
علاوہ ازیں 70 لاکھ کی آبادی پر مشتمل وادی میں ٹیلی فون سروس بحال کردی گئی تھی البتہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے جبکہ بھارت کا اصرار ہے کہ صورتحال ’معمول کے مطابق‘ ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سخت اقدامات کرنے کے 2 ماہ بعد وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی جانیں جاچکی ہیں۔