یکساں نصاب کا فائدہ؟
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کئی موقعوں پر اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ پورے پاکستان میں پہلی تا بارہویں جماعت تک یکساں نصاب پڑھایا جائے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر تعلیم بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اگلے تعلیمی سال تک صوبے میں پہلی تا پانچویں یکساں نصاب نافذ کردیا جائے گا۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یکساں نصاب سے ان کی کیا مراد ہے، اس کوشش کے پیچھے مقاصد کون سے ہیں اور پاکستانی بچے اس یکسانیت سے کیا کچھ حاصل کریں گے۔
چلیے اختیارات یا 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیمی شعبے میں وفاقی حکومت کے محدود ہوجانے والے اختیارات پر فی الحال بات نہیں کرتے۔ یہ ہر طرح سے ایک اہم موضوع ہے لیکن اسے پھر کبھی زیرِ بحث لائیں گے۔ اس تحریر میں میری توجہ کا محور یکسانیت ہے اور یہ کہ اس سے کیا مراد ہے اور کیا مراد نہیں ہے۔ پھر تھوڑی بہت بات اس موضوع پر کی جائے گی کہ ’نصاب‘ سے مراد کیا ہے؟
اگر امتحانات بہت ہی مشکل ہوئے تو ان میں کامیابی حاصل کرنے والوں اور ناکام ہوجانے والوں کے درمیان تفریق پیدا ہوگی۔ کسے ملازمتوں تک رسائی مل سکتی ہے اور کسے نہیں اس تناظر میں جب میٹرک پاس اور میٹرک فیل کے درمیان فرق کو ادارتی صورت دی جائے گی تو تفریقات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگا۔
یکساں تعلیمی زبان (مثال کے طور پر اردو) کا نفاذ عمل میں لانے سے اگر گھر میں بولی جانے والی یا مادری زبان نظر انداز ہوجائے تو یوں ہم درحقیقت سیکھنے کے عمل میں بچوں کے لیے مشکلات کر رہے ہوتے ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس faisal.bari@ideaspak.org اور bari@lums.edu.pk ہے۔