الطاف حسین مشروط ضمانت ملنے کے بعد واپس جارہے ہیں — فوٹو: عاتکہ رحمٰن
کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) نے عدالت سے الطاف حسین کو مشروط ضمانت دینے کی درخواست کی۔
ان شرائط میں الطاف حسین پر برطانیہ یا بیرون ملک عوام کے لیے سوشل میڈیا، ریڈیو، ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے کسی بھی قسم کا آڈیو یا ویڈیو پیغام نشر کرنا اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بات کرنے کی پابندی شامل ہے۔
الطاف حسین کی وکیل کیٹ گوولڈ نے جج کو بتایا کہ ان کے موکل کی طبیعت انتہائی خراب ہے۔
اس کے بعد عدالت کی کارروائی میں وقفہ ہوا اور پراسیکیوشن اور الطاف حسین کے وکلا نے ضمانت کی شرائط پر مزید بات چیت کی، جس کے بعد بانی ایم کیو ایم کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔
کیس کی اگلی سماعت سینٹرل کرمنل کورٹ میں یکم نومبر کو ہوگی۔
قبل ازیں الطاف حسین کو عدالت میں پیش کیے جانے سے پہلے ایم کیو ایم کے متعدد حامی وہاں پہنچے تھے۔
پولیس کے مطابق 'الطاف حسین کو 11 جون کو سنگین جرائم ایکٹ 2007 کی دفعہ 44 کے تحت دانستہ طور پر اکسانے یا جرائم میں معاونت فراہم کرنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا'۔
دہشت گردی ایکٹ 2006 کی دفعہ ایک (2) کے مطابق:
ایک شخص جرم کرتا ہے اگر
(الف) وہ ایک بیان شائع کرتا ہے جس پر یہ سیکشن لاگو ہو یا کسی دوسری کی جانب سے اس طرح کے بیان کا سبب بنتا ہو؛ اور
(ب) اس وقت جب وہ اس بیان کو دے یا اس کے شائع ہونے کا سبب بنے، وہ
(i) عوام کے طبقے کو ارادتاً بالواسطہ یا بلاواسطہ اکسائے یا بصورت دیگر بیان سے متاثر ہوکر دہشت گردی کے اقدام کا مرتکب، تیاری یا اکسانا یا کنونشن جرائم؛ یا
(ii) اس سے بات سے لاعلم ہے کہ اس سے عوام کے ارادوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ تقویت ملے گی یا بصورت دیگر اس طرح کے کام یا جرائم کے لیے انہیں حوصلہ ملے گا۔
اسی ایکٹ کے سیکشن ون (7) کے مطابق اس دفعہ کے تحت جرم کے قصوروار شخص کو اس کا مرتکب قرار دیا جائے گا۔
(اے) فرد جرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ (15 سال) قید یا جرمانہ، یا دونوں ہے۔
(بی) برطانیہ اور ویلز میں سمری سزا پر زیادہ سے زیادہ سزا 12 ماہ یا جرمانہ، یا دونوں ہے۔
(سی) اسکاٹ لینڈ یا شمالی آئرلینڈ میں سمری سزا پر سزا زیادہ سے زیادہ 6 ماہ یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہے۔
الطاف حسین کی پیشی اور گرفتاری
قبل ازیں برطانیہ سے بیٹھ کر پاکستان میں نفرت انگیز تقاریر سے متعلق تفتیش میں ضمانت ختم ہونے کے بعد الطاف حسین میٹروپولیٹن پولیس کے ساؤتھ وارک پولیس اسٹیشن میں پیش ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں الطاف حسین کی یہ تیسری پیشی تھی۔
اس سے قبل 12 ستمبر کو بانی ایم کیو ایم 5 گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں موجود رہے تھے، بعد ازاں انہیں ضمانت میں توسیع کرکے جانے دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: نفرت انگیز تقریر: الطاف حسین کی ضمانت میں توسیع
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو میٹرو پولیٹن پولیس نے 11 جون کو ان کی مبینہ نفرت انگیز تقاریر کی تفتیش کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔
جون 2019 میں الطاف حسین کی گرفتاری پر میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا تھا کہ 60 سال سے زائد عمر کے شخص کو شمال مغربی لندن میں سنگین جرائم ایکٹ 2007 کی دفعہ 44 کے تحت دانستہ طور پر اکسانے یا جرائم میں معاونت فراہم کرنے کے شبے میں گرفتار کیا گیا تھا۔
الطاف حسین کو پولیس اینڈ کرمنل ایویڈنس ایکٹ کے تحت حراست میں لے کر جنوبی لندن کے پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان سے پولیس حراست میں تفتیش کی گئی تھی، تاہم ایک روز بعد ہی برطانوی انتظامیہ نے چارجز فائل کیے بغیر انہیں ضمانت پر چھوڑ دیا تھا۔
الطاف حسین کی ضمانت پر رہائی کے بعد ایم کیو ایم لندن کے ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ حکام نے ان پر چارجز عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وہ ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کے لیے اپنی تفتیش جاری رکھیں گے۔
میٹرو پولیٹن پولیس نے کہا تھا کہ یہ تحقیقات 'اگست 2016 میں ایم کیو ایم سے منسلک ایک شخص کی جانب سے پاکستان میں کی گئی تقریر سمیت اسی شخص کی گزشتہ تقاریر کے گرد گھومتی ہے'۔
علاوہ ازیں جون میں پولیس افسران نے لندن کے شمال مغربی حصے میں ایم کیو ایم کے بانی سے منسلک دو جگہوں کی تلاشی لی تھی۔
اس موقع پر پولیس نے کہا تھا کہ ان کے افسران جاری تفتیش کے سلسلے میں پاکستان سے رابطے میں ہیں۔
واضح رہے کہ لندن میں رہنے والے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین 27 سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے دوران مختلف انکوائریز کا سامنا کر رہے ہیں اور انہیں پہلی مرتبہ 3 جون 2014 کو منی لانڈرنگ سے متعلق تفتیش کے دوران گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بانی ایم کیو ایم الطاف حسین لندن میں گرفتار
2016 میں برطانوی حکام نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات ختم کردی تھیں اور انہیں وہ رقم واپس کردی تھی جو 2014 کے دوران الطاف حسین کے گھر اور دفتر پر مارے گئے چھاپوں کے دوران برآمد کی گئی تھیں۔
یہی نہیں بلکہ الطاف حسین کو ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کے دوران بھی سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے الطاف حسین کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر کی گئی اشتعال انگیز تقریر کے بعد پاکستان میں ان کی پارٹی کو ان سے لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا تھا۔