پاکستان

ٹوئٹر اب ’سرکاری‘ اکاؤنٹس معطل کرنے سے قبل حکومت کو متنبہ کرے گا

حکومت کو اکاؤنٹس کی شکایات سے آگاہ کرنے پر اتفاق کیا گیا،مواد معطل کرنے کا فیصلہ ٹوئٹر کا ہوگا، چیئرمین این آئی ٹی بی

کراچی: چیئرمین نیشنل آئی ٹی بورڈ شباہت شاہ کا کہنا ہے کہ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ حکومت کے تصدیق شدہ اکاؤنٹ پیشگی اطلاع اور حکومتِ پاکستان سے مشاورت کے بغیر معطل نہیں کریں گے۔

خیال رہے کہ رواں برس اگست میں کئی صارفین کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے واقعات پوسٹ کرنے پر ٹوئٹر اکاؤنٹ اور ٹوئٹس معطل کرنے سے متعلق شکایات کی گئی تھیں۔

مذکورہ شکایات صحافیوں، سماجی کارکنان، حکومتی عہدیداران اور پاک فوج کے فینز کی جانب سے کی گئیں تھیں جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی حمایت میں ٹوئٹ کیے تھے۔

اسی دوران پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اس حوالے سے ہیش ٹیگ StopSuspendingPakistanis# بھی ٹرینڈ کررہا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی اے نے کشمیر تنازع پر اکاؤنٹ معطلی کا معاملہ ٹوئٹر کے سامنے اٹھادیا

بعد ازاں حکومت نے بتایا تھا کہ ٹوئٹر کی جانب سے 2 سو اکاؤنٹس معطل کیے گئے تھے، ساتھ ہی ٹوئٹر کو کشمیریوں اور ان کے حامیوں کو خاموش کروانے کے لیے بھارت کی مدد کرنے پر مورد الزام بھی ٹھہرایا گیا تھا۔

ٹوئٹر کی جانب سے معطل کیے جانے والے اکاؤنٹس کی فہرست میں کچھ سرکاری عہدیداران کے ٹوئٹر ہینڈلز بھی شامل ہیں۔

19 اگست کو ٹوئٹر کے وائس پریذیڈنٹ ٹرسٹ اینڈ سیفٹی، ڈیل ہاروی کو لکھے گئے خط میں نیشنل آئی ٹی بورڈ (این آئی ٹی بی) چیئرمین شباہت علی شاہ نے کہا تھا کہ پاکستانی صارفین کے اکاؤنٹس کسی وارننگ یا کسی پیشگی اطلاع دیے بغیر بند کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر سے اکاؤنٹ معطل کیے جانے سے قبل ’متنازع مواد‘ حکومت کے نوٹس میں لانے کی درخواست کی تھی۔

چیئرمین این آئی ٹی بی نے ٹوئٹر سے حکومتی عہدیداران کے اکاؤنٹس کی تصدیق کرنے کی درخواست بھی کی تھی، اس حوالے سے چیئرمین شباہت علی شاہ نے کہا تھا کہ ’حکام کو نوٹس دیے بغیر حکومت کے اکاؤنٹس معطل نہیں کرنے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: کشمیر حامی اکاؤنٹس کی بندش: پاکستان نے معاملہ فیس بک، ٹوئٹر کے سامنے اٹھادیا

انہوں نے کہا کہ حکومت بھی سرکاری اکاؤنٹس سے پوسٹ کیا جانے والا مواد دیکھے گی اور ان کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کا جائزہ بھی لے گی۔

چیئرمین شباہت شاہ نے ٹوئٹ کیا کہ ’2 ماہ کی کوششں کے بعد ٹوئٹر نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ حکومت کے تصدیق شدہ اکاؤنٹ پیشگی اطلاع اور حکومتِ پاکستان سے مشاورت کے بغیر معطل نہیں کریں گے‘۔

مذکورہ اعلان کے بعد میڈیا رپورٹس سامنے آئیں کہ ٹوئٹر پاکستانی اکاؤنٹس معطل نہیں کرے گا یا حکومت کی مداخلت کے بغیر اکاؤنٹس معطل نہیں کرے گا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے چیئرمین این آئی ٹی بی نے اپنے بیان کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ 'ٹوئٹر نے حکومت کو سرکاری یا پاکستانی حکام کے خلاف موصول ہونے والی شکایات سے آگاہ کرنے پر صرف اتفاق کیا ہے، مواد معطل کرنے کا فیصلہ تاحال ٹوئٹر کا ہی ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ٹوئٹر کے ساتھ یہ ‘زبانی‘ معاہدہ تمام پاکستانی صارفین کے نہیں بلکہ صرف مخصوص اکاؤنٹس کے لیے ہے۔

شباہت شاہ نے کہا کہ وہ سرکاری ٹوئٹر ہینڈلز کی ایک فہرست بنائیں گے جس میں وزرا کے ترجمان، دیگر نمائندے اور غیر سرکاری تنظیموں کے کچھ اکاونٹس جن کی ذمہ داری حکام قبول کرتے ہیں شامل ہوں گے۔

چیئرمین این آئی ٹی بی نے کہا کہ ’ایک مرتبہ یہ فہرست ٹوئٹر کو جمع کروادی گئی تو وہ مستقبل میں ہمیں اطلاع کردیں گے جب ان میں سے کوئی اکاؤنٹ ٹوئٹر کے قوانین اور پالیسیوں کی خلاف ورزی کرے گا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک مرتبہ ٹوئٹر سے وارننگ موصول ہوگئی تو ہم دیکھیں گے کہ اس حوالے سے کیا کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: تکنیکی صلاحیت بڑھائیں یا سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کریں، پی ٹی اے کی تجویز

ڈان سے گفتگو میں ٹوئٹر نے بارہا کہا ہے کہ وہ تمام پالیسیز کو منصفانہ طریقے سے نافذ کرتا ہے، سیاسی نظریات اور شہریت سے بالاتر ہو کر تمام صارفین کی غیر جانبداری کو یقینی بناتا ہے۔

چیئرمین این آئی ٹی بی نے کہا کہ ’ہم علاقائی ٹیموں کو شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وہ کس طریقے سے مواد کو اعتدال میں لاتے ہیں ہم اس پراثر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ ٹوئٹر قانونی طور پر پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے ٹوئٹر سے پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے پر اصرار کیا ہے۔

بولو بھی تنظیم کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق اکاؤنٹ معطلی سے قبل حکومت کو ٹوئٹر کی جانب سے متنبہ کرنے کے باوجود اکاؤنٹ معطل ہونے کے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’ٹوئٹر اپنی کمیونٹی گائیڈلائنز کے مطابق مواد ہٹاتا اگر اس کی خلاف ورزی کرنے والے ٹوئٹس موجود ہوں گے تو وہ اس مواد کو ہٹادیں گے، پاکستان اور ٹوئٹر کے درمیان باہمی قانونی معاونت کا کوئی معاہدہ موجود نہیں اس لیے حکومت کے ساتھ کوئی خاص معاہدہ طے پانا ممکن نہیں‘۔


یہ خبر 10 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی