ان تینوں کا تحقیقی کام خون کی کمی اور کینسر وغیرہ کے نئے طریقہ علاج تشکیل دینے میں مدد دے سکے گا۔
اس انعام کو دینے والی سوئیڈش اکیڈمی کا اپنے بیان میں کہنا تھا 'آکسیجن کی اہمیت کے بارے میں ہم سب صدیوں سے جانتے ہیں مگر خلیات آکسیجن کی سطح کے مطابق کس طرح مطابقت اختیار کرتے ہیں، اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا'۔
ان تینوں سائنسدانوں میں 90 لاکھ نارویجن کرونر کے نقد انعام کو تقسیم کیا جائے گا۔
آکسیجن کی سطح جسم میں بدلتی رہتی ہے جیسے ورزش، زیادہ بلندی یا کسی زخم کے نتیجے میں اس کی سطح کم ہوتی ہے اور خلیات بہت تیزی سے اس کے مطابق خود کو بدلتے ہیں۔
یہ اہم کیوں ہے؟
آکسیجن کی فہم کی صلاحیت جسمانی مدافعتی نظام کے حوالے سے کردار ادا کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیات بننے کے عمل یا شریانوں کی مرمت کا عمل حرکت میں آسکتا ہے۔
ان محققین کی دریافت سے عندیہ ملتا ہے کہ ایسی ادویات جو آکسیجن کی کمی کا تاثر قائم کرسکیں وہ خون کی کمی پر قابو پانے میں موثر طریقہ علاج ثابت ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح کینسر زدہ رسولی جو خون کی نئی شریانوں کے بننے اور نشوونما کے عمل پر قابض ہوجاتی ہیں، ان کو بھی ادویات کی مدد سے ریورس کرکے کینسر کے علاج میں مدد مل سکے گی۔
ان محققین نے اپنے کام میں دریافت کیا تھا کہ آکسیجن کی سطح میں کمی پر ہارمون erythropoietin یا ای پی او کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ پروٹین کا ایک مجموعہ ایچ آئی ایف ڈی اینے کے رویے کو بدلتا ہے۔
اس حوالے سے مزید تحقیق میں معلوم ہوا کہ جب آکسیجن کی سطح معمول پر آتی ہے تو خلیات لگاتار ایچ آئی ایف بناتے رہتے ہیں، تاکہ ایک اور پروٹین وی ایچ ایل کو تباہ کرسکیں۔
مگر جب آکسیجن کی سطح کم ہوتی ہے تو وی ایچ ایل ایچ آئی ایف پر منحصر نہیں رہتا جس کے نتیجے میں ڈی این اے کے رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔
گزشتہ سال طبی کا نوبیل انعام کینسر کے علاج میں انقلابی طریقہ کار کو دریافت کرنے والے امریکی اور جاپانی سائنسدانوں کو دیا گیا تھا۔
اسی طرح 2017 میں حیاتیاتی گھڑی کو کنٹرول کرنے والے مالیکیولز میکنزم کی دریافت کرنے والے امریکی سائنسدانوں کو طب کی دنیا کے اس سب سے بڑے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔