منی مرگ، فیری میڈوز تا رتی گلی: ہمالیائی گھاس کے میدانوں سے...
لاہور میں حبس بھرے گرم ترین دن گزر رہے تھے۔ ساون کا مہینہ تھا۔ میرے گھر کے برابر لگے آم کے درخت پر پپیہے کی جوڑی نے گھونسلا بنایا تھا۔ ان کی گوں گوں کی آوازیں بھری دوپہر میں میرے کمرے تک آتی رہتیں۔
کبھی کبھار جب ان کی آواز تیز ہوجاتی تو میں اپنے کمرے کی کھڑکی پر لٹکتی نیلی چق اٹھا کر ان کے درخت سے لٹکتے گھونسلے کو دیکھتا۔ مادہ اپنی چونچ سے گھونسلے کے تنکوں کو سنوارتی رہتی اور نَر اس کی مدد کو تنکے اپنی چونچ سے پکڑ کر لاتا رہتا۔
ساون کی ایک دوپہر میں بارش کی جھڑی لگی۔ پپیہے کا جوڑا اس دن خاموش تھا۔ میں نے کھڑکی کی چق ہٹا کر دیکھا۔ وہ دونوں بارش سے بچنے کی خاطر اپنے گھونسلے میں دبکے بیٹھے تھے۔ گھونسلا شاخ یوں لٹک رہا تھا جیسے درخت پر پھل آیا ہو۔ دونوں کا تنکا تنکا جوڑتے بنا یہ گھر قطرہ قطرہ بکھر رہا تھا۔ میرے ذہن میں مارموٹ کی سیٹی گونجنے لگی۔