محمد حنیف کے سرخ پرندے بہ یک وقت ہنساتے بھی رُلاتے بھی
مصنّف نے اپنے قلم کے ذریعے امریکی فوجیوں اور پناہ گزینوں کے بیچ نفسیاتی تناؤ یا رشتے کی شاندار عکاسی کی ہے۔
’سرخ پرندے حقیقی ہیں۔ انہیں یاد رکھنے کے ڈر سے ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ جب کسی کا سر قلم کیا جاتا ہے تب مقتول کے خون کا آخری قطرہ چھوٹے سے سرخ پرندے میں تبدیل ہو کر اُڑ جاتا ہے۔ جب ہم انہیں فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تب وہ نمودار ہوتے ہیں۔ ان کا نمودار ہونا ایک یادداشت نامہ ہے کہ بھلے ہی وہ مر گئے ہیں لیکن انہوں نے ہمیں چھوڑا نہیں ہے۔ ہم انہیں کتنا بھی فراموش کرنے کی کوشش کریں لیکن جب ہم اوپر دیکھتے ہیں تو سرخ پرندے نظر آ ہی جاتے ہیں۔‘
پاکستان کے نامور صحافی و ناول نگار محمد حنیف اپنے نئے ناول ’ریڈ برڈز‘ میں سرخ پرندوں کی وضاحت کچھ اسی طرح پیش کرتے ہیں۔ ناول تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حّصے کا نام صحرا میں، دوسرے حّصے کا نام کیمپ میں اور تیسرے حّصے کا نام دی ہینگر کی جانب رکھا گیا ہے جس میں میجر ایلی سفر کرتے پائے جاتے ہیں۔