نقطہ نظر

ماہانہ تنخواہ: خطرناک ترین نشوں میں سے ایک نشہ

یہ زندگی اپنے ہنر کو کسی اور کے ارادوں پر وار دینے سے بہت بڑا کام ہے۔ یہ زندگی آپ کے حوصلے کے مطابق پھیلتی اور سکڑتی ہے۔

’کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا کے 3 خطرناک ترین 'ڈرگز' کون سے ہیں؟‘

کانفرنس کے اختتامی نوٹ اسپیکر نے ہال میں بیٹھے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

’اس دنیا کے 3 خطرناک ترین نشے ہیں

آپ پہلے 2 نمبروں پر نشے کی کوئی دوسری قسم بھی لاسکتے ہیں مگر ماہانہ تنخواہ ایسا نشہ ہے جس سے چھٹکارا پانا سب سے مشکل کام ہے۔‘

یہ پاکستان میں اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے کے حوالے سے ایک کانفرنس تھی۔ یہاں پر بزنس شروع کرنے، اس کی داغ بیل مضبوط کرنے اور اسے ترقی دینے کے حوالے سے شرکا کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سبھی اسپیکرز نے اس حوالے سے تکنیکی معاملات پر گفتگو کی مگر اختتامی نوٹ اسپیکر نے کچھ مختلف کیا۔ انہوں نے شرکا کے دلوں میں چھپے ناکامی کے ڈر اور خوف کی زنجیروں کو ہلانے کی سعی کی۔

’آپ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قدرت ‘انیشییٹو’ (initiative) لینے والوں پر مہربان ہوتی ہے۔ کوئی کام شروع کرنا، اس کے لیے قدم اٹھانا دنیا کا سب سے جگرے والا کام ہے۔ کامیابی، جادو اور کرشموں کی ساری دنیا کا دروازہ انیشییٹو سے کھلتا ہے۔ آپ کو قدرت کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ آپ کو خود پر، اپنے آئیڈیا پر اور اپنے کام پر ایمان کی حد تک یقین ہے۔

چاہے ساری دنیا آپ کی مخالف ہو، لوگ ناامیدی اور منفی باتوں سے آپ کی امید مار دیں، وسائل کا فقدان آپ کا حوصلہ پست کردے، اس کے باوجود آپ کا دل اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ میں اس کام میں کامیاب ہوجاؤں گا، میرا یہ آئیڈیا ہٹ ہوجائے گا، آپ کی دھڑکن آپ سے روزانہ تنہائی میں سرگوشی کرے کہ یہ دنیا پاگل ہے، اس نے ہر نئی چیز کی مخالفت کی تھی، اس نے بڑا سوچنے والے ہر ایک کی راہ میں روڑے اٹکائے تھے، اس نے مہینے کی تنخواہ کے گھن چکر میں کروڑوں ارادوں کو ملیا میٹ کیا، لاکھوں خوابوں کو چکنا چور کیا اور یہ سوچ ان گنت جوانیوں کو دیمک کی طرح چاٹ گئی مگر تمہیں اس چکر ویو کا حصہ نہیں بننا، تم مختلف ہو، تم دریا کا رُخ موڑنے والے ہو، تم کچھ بڑا کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔‘

وہ کب اسٹیج سے اترے اور شرکا کے بیچ آن پہنچے کسی کو اندازہ نہیں ہوا۔ البتہ ان کے گلے کی پھولتی رگیں اور سرخ ہوتی رنگت یہ بتا رہی تھی کہ ان کے لفظ محض لفظ نہیں ان کے خون میں دوڑتا یقین ہے۔

‘یہ زندگی ایک کرسی پر بیٹھے، کمپیوٹر کی اسکرین کے پیچھے گزار دینے سے بہت بڑی شے ہے۔ یہ اپنے ہنر کو کسی اور کے ارادوں پر وار دینے سے بہت بڑا کام ہے۔ یہ زندگی آپ کے حوصلے کے مطابق پھیلتی اور سکڑتی ہے، اور انیشییٹو اس حوصلے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ آپ پہلا قدم چاہے خوف میں ڈگمگاتا اُٹھائیں، ڈوبتے دل، لرزتی آواز کے ساتھ ہی اُٹھائیں، مگر اُٹھائیں۔ اس دنیا میں سب سے بڑی فتح اپنے خوف کو سر کرنا ہے۔ آپ یہ نہ کر پائے تو آپ کے دل میں سدا کچھ جلتا رہے گا جس کی راکھ ٹھنڈی آہوں میں پچھتاوے کی صورت آپ کو سسکاتی رہے گی۔‘

سننے والوں میں سے کچھ کے لیے یہ باتیں صرف باتیں تھیں جو وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہے تھے کہ خدا نے 2 کان بنائے ہی اس لیے ہیں۔ مگر کچھ کے لیے یہ باتیں ان کے دل و دماغ میں خوف کی زنجیریں توڑنے کا سبب بن رہی تھیں۔ وہ ان لفظوں کی لڑی کو کان سے سن کر دماغ میں بُن رہے تھے کہ کہیں یہ دوسرے کان سے نکل ہی نہ جائیں۔ رب نے ان 2 کانوں کے درمیان دماغ اسی لیے رکھا ہے کہ جو بات کام کی لگے اسے دوسرے کان سے پھسلنے سے پہلے مغز میں باندھ لیا جائے۔

‘آپ کو اگر میری باتیں صرف باتیں لگ رہی ہیں اور یہاں پر آئے ماہرین کی ’سکسیس اسٹوری‘ جادو نظر آتی ہے تو جان لیں کہ Those who don’t believe in magic will never find it۔ یہ لوگ جو یہاں سکسیس اسٹوریز سنانے آتے ہیں ان میں اور آپ میں صرف ایک فرق ہے، اور وہ یہ کہ ان لوگوں نے انیشییٹو لیا تھا۔ ان میں سے کئی بہتیری دفعہ ناکام بھی ہوئے مگر یہ جانتے تھے کہ ناکام ہوجانا اور ہار جانا، شروع نہ کرنے سے بہتر ہے۔ ہار جانا بزدلوں کی طرح ڈر کے مارے کسی اور کے لیے زندگی جیتے رہنے سے کہیں بہتر ہے۔‘

کانفرنس کا وقت ختم ہوچکا تھا پر سب ہمہ تن گوش تھے۔ وہ اپنی کتھا سنانے لگے کہ ’میں ایک دفعہ پاکستان کی ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی کے جی ایم مارکیٹنگ کے پاس اپنے ایک پراجیکٹ کے لیے اسپانسر شپ لینے گیا۔ اس نے میرا آئیڈیا سن کر میرا ہاتھ چوم لیا۔ اس کے لفظوں نے مجھے ایسا حوصلہ اور امنگ دی کہ میں ‘کِک اسٹارٹ’ ہوگیا۔

اس نے میرا ہاتھ چوما، کاندھے پر تھپکی دی اور کہنے لگا کہ میرا کیرئیر 27 سالوں پر محیط ہے اور اس نوکری کے پہلے 2 سالوں کے بعد سے میں اپنے ایک آئیڈیا پر کام کرنے کا سوچ رہا ہوں۔ اس وقت میں جوان اور توانائی سے بھرپور تھا، میرے پاس اسکل سیٹ بھی تھا، تجربہ بھی، مارکیٹ اینٹیلی جنس بھی، مگر بس مجھ میں یہ لگی بندھی تنخواہ چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں نے 25 سال یہ سوچتے گزار دیے مگر کچھ شروع نہ کرسکا اور اب اس عمر میں میرا دل، میری ہمت سب مرچکا ہے۔ میں نے آج تمہارا آئیڈیا سنا اور یہ دیکھا کہ کیسے تم نے وسائل کے فقدان کے باوجود ایک انیشییٹو لیا ہے۔ اس کا صلہ یہی بنتا ہے کہ میں تمہارا ہاتھ چوموں اور جو مدد کرسکتا ہوں وہ کروں اور بالفرض اگر یہ آئیڈیا ناکام بھی ہوجائے، پٹ بھی جائے تب بھی کچھ غم نہیں کہ تم ایک باہمت، باحوصلہ انسان ہو، تم ایک دن کامیاب ہو ہی جاؤ گے۔‘

بس اس کے ان لفظوں نے مجھے کک اسٹارٹ کردیا کیونکہ میں اپنی زندگی کے 25 سال اس پچھتاوے اور آگ میں نہیں جلانا چاہتا تھا جیسی اس کے دل میں جل رہی تھی۔‘

انہوں نے گھڑی پر نظر ڈالی اور انہیں یہ ادراک ہوا کہ وہ معینہ وقت سے زیادہ بول گئے ہیں۔ انہوں نے بات سمیٹی۔

‘ہم سب اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بہانے بناتے گزارتے ہیں۔ یہ سب ہمارے ڈر کی مختلف شکلیں ہیں۔ اکسکیوزز اور بہانوں کی بیڑیاں نظر نہیں آتیں مگر اُڑان بھرنے کے لیے ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا بے حد ضروری ہے۔ آپ قدم اُٹھائیں، انیشییٹو لیں، پھر دیکھیے کہ قدرت آپ کے ساتھ کیسے چلنے لگے گی۔ یہ راستہ شاید مشکل ہو مگر زندگی کے وہ رنگ دیکھیں گے جو آپ کے گمان تک میں نہیں اور فرض کریں کہ اگر آپ ناکام بھی ہوگئے تو یقین مانیں، It’s worth a try۔‘

خزیمہ سلیمان

خزیمہ سلیمان میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں اور 11 برس سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے کالم آغا جی کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔ انہیں سیلف ہیلپ اور زندگی سے متعلق موضوعات پر لکھنا پسند ہے.

انہیں فیس بک پر یہاںفالو کریں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔