پاکستان

اقلیتوں کے حقوق کے عدالتی حکم نامے پر عملدرآمد کیلئے خصوصی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ

سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات پر ماہانہ رپورٹ بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 2014 میں دیے گئے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد اور مذہبی رواداری اور معاشرتی برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے مذکورہ معاملہ مزید غور اور عملدرآمد بینچ کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھجوادیا۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر ماہانہ رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: اقلیتوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب چوہدری فیصل حسین نے اپنے صوبے کی نمائندگی کی۔

خیال رہے کہ 2014 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا تھا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو گرانے یا قانون کے تحت ان کو حاصل حقوق کی خلاف ورزی پر مجرمانہ مقدمات درج کیے جائیں۔

سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے لکھے گئے فیصلے میں وفاقی حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر نفرت انگیز تقاریر کی حوصلہ شکنی یقینی بنائیں اور ذمہ داروں کو انصاف کٹہرے میں لائیں۔

خیال رہے کہ یہ حکم نامہ 22 ستمبر 2013 کو پشاور کے ایک گرجا گھر میں ہونے والے دھماکے سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس پر سامنے آیا تھا جس میں 81 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے‘

32 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اسکول کالجز کی سطح پر مناسب نصاب ترتیب دے کر مذہبی رواداری اور برداشت کی فضا کو فروغ دینے اور اس کے ساتھ مذہبی برداشت کی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے خصوصی پولیس فورس بنانے اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پیشہ وارانہ تربیت دینے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے ساتھ ایک قومی کونسل برائے اقلیتوں کے حقوق بنانے کا بھی حکم دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری اقلیتوں کو آئین کے تحت حاصل حقوق اور فراہم کیے گئے حقوق کی عملی نگرانی کرنا ہو۔