جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت، حکومت مخالف 'آزادی مارچ' کا آغاز 27 اکتوبر سے کرے گی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ حکومت جعلی انتخابات کے نتائج سے موجود میں آئی اور سب نے 25 جولائی 2018 کے انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے از سر نو نئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کی معیشت ڈوب چکی ہے، مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے اور کاروباری طبقے نے بھاری ٹیکسز کی وجہ سے اپنے کاروبار بند کردیے ہیں، ان تمام معاملات پر ہم نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'اس حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا سودا کردیا ہے، 27 اکتوبر کو ہم کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کریں گے اور اس کے لیے مظاہروں کے ساتھ اسلام آباد کی جانب بھی مارچ کریں گے جس کے لیے پورے ملک سے قافلے چلیں گے اور اسلام آباد پہنچیں گے، جو اس حکومت کو چلتا کریں گے'۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ 'ملک کو سنگین خدشات لاحق ہیں، پاکستان اور اس کی ایٹمی صلاحیت کی بقا کا سوال پیدا ہوگیا ہے اور یہ لوگ مذہب کی باتیں کرتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں، بلاول بھٹو نے مثبت گفتگو کی، مسلم لیگ (ن) کے وفد کا بھی بیان سب نے سنا تاہم کچھ چیزیں ایسی تھیں جسے ہم نے آج کے لیے چھوڑا ہوا تھا اور وہ اب آپ کے سامنے آگئی ہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'پورے ملک کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے مجھ سے براہ راست رابطے میں ہیں اور اس رابطے میں انہوں نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے میں اس کی ترجمانی کر رہا ہوں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہمارے آزادی مارچ کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو دوسری اسکیم اپنائیں گے اور اگر اس میں بھی رکاوٹ ڈالی گئی تو ہم تیسری اسکیم اپنائیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم ڈی چوک تک آئیں گے اور ہمارا جلدی اٹھنے کا ارادہ نہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 'ہمارے درمیان کسی بھی معاملے پر حکومت سے مفاہمت نہیں ہوسکتی اور ان کا جانا ہی ہماری شرط ہے'۔
بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات
قبل ازیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے لیے پہنچے تھے جہاں جے یو آئی (ف) کے اکرم درانی اور مولانا اسد الرحمٰن نے ان کا استقبال کیا تھا۔