طالبان رہنماؤں کی امریکی نمائندہ خصوصی سے بھی ملاقات متوقع ہے—تصویر: نوید صدیقی
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی جانب راغب ہوں تاکہ دیرپا اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔
مزید پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان، افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا مصالحانہ کردار صدق دل سے ادا کرتا رہے گا۔
طالبان وفد کے دیگر 11 افراد میں ملا فاضل اخوند، محمد نبی عمری، عبدالحق و ثیق، خیر اللہ خیرخواہ، امیر خان متقی مطیع الحق خالص، عبدالسلام حنیفی، ضیا الرحمٰن مدنی، شہاب الدین دلاور اور سید رسول حلیم شامل ہیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات میں پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔
علاوہ ازیں طالبان کا 12رکنی وفد آج وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ اعلی حکومتی شخصیات سے اہم ملاقاتیں کرے گا جبکہ وفد کی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کا قوی امکان ہے۔
واضح رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد 5 رکنی امریکی وفد کے ساتھ گزشتہ 3 روز سے اسلام آباد میں موجود ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ نے ایک بیان میں طالبان کے سیاسی دھڑے کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ طالبان امریکا امن مذاکرات کے تحت اب تک ہونے والے پیش رفت پر نظر ثانی کرنے اور افغان مفاہمتی عمل کو بحال کرنے کے کا موقع ہے‘۔
خیال رہے کہ دونوں وفود آئندہ کچھ روز تک اسلام آباد میں رہیں گے، اس دوران علیحدہ علیحدہ پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے اور مذاکرات کی بحالی پر سمجھوتہ ہونے کی صورت میں آپس میں بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ‘اگر زلمے خلیل زاد یہاں موجود ہیں اور ملنا چاہتے ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں‘۔
اس ضمن میں ایک سینئر سفارتی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندوں اور طالبان وفد کا دورہ، دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کی بحالی کا پیش خیمہ ہے۔
مزید پڑھیں؛ طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے زلمے خلیل زاد اسلام آباد میں موجود
دوسری جانب ایک اور سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان، امریکا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم امریکا، افغانستان میں جنگ بندی اور مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت کی شرائط پر بات چیت بحال کرنا چاہتا ہے۔
امریکا کے ساتھ ہونے والے ممکنہ سمجھوتے میں طالبان کے موقف کے حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ہم وہیں ہیں جہاں تھے‘، جہاں تک ہمارے تحفظات کی بات ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈرافٹ ہونے والے سمجھوتے میں ہمارے تمام تر تحفظات کا خیال رکھا گیا تھا جس میں غیر ملکی افواج کو انخلا کی صورت میں محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی یقین دہانی شامل ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی'۔
افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد اب تک کیا ہوا؟
یاد رہے کہ 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔
امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی
بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔
ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔
لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔