دنیا

'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ

کمپنی نے لندن کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی اپیل کی جس میں حکومت پاکستان کو2کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادائیگی کاکہا گیا تھا۔

برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے علاقے ایون فیلڈ میں شریف خاندان کی عالیشان جائیداد ’مے فیئر‘ کے حوالے سے اثاثہ برآمدگی (ایسیٹس ریکوری) کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی کی جانب سے نیا دعویٰ سامنے آگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ کمپنی سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں برطانیہ سے متصل ایک آزاد ریاست ’آئزل آف مین‘ میں رجسٹرڈ کی گئی تھی جس نے اس وقت کی حکومت اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو غیر قانونی دولت کے ذریعے بیرونِ ملک اثاثوں کا سراغ لگانے میں مدد دی تھی۔

مذکورہ کمپنی کی نمائندگی کرنے والے اور امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل اسٹارٹ نیو برجر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کمپنی کو واجب الادا 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کے لیے لندن ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ عدالت کے دیے گئے حکم پر عملدرآمد کے لیے ایک مرتبہ پھر لندن ہائی کورٹ سے رجوع کروں۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟

انہوں نے بتایا کہ ہم شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد پر دعویٰ کررہے ہیں جس کے بارے میں پاکستانی عدالت نے حکم دیا تھا کہ حکومت کو اسے ضبط کرلینا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ رواں ہفتے حکم نامہ جاری ہوجائے گا۔

براڈ شیٹ ایل ایل سی کی جانب سے دائر دعوے کی دستیاب نقل کے مطابق کمپنی نے لندن ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی اپیل کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کو اسے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کرنے چاہئیں۔

اس کے ساتھ کمپنی نے اس رقم میں 4 ہزار 758 ڈالر روزانہ کے حساب سے سود بھی شامل کرنے کی درخواست کی ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2018 میں برطانوی ثالثی عدالت نے حکومت پاکستان کی جانب سے براڈ شیٹ کو 2 لاکھ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا حکم دیا تھا جس کے خلاف رواں برس جولائی میں پاکستانی حکومت نے اپیل کی تھی تاہم وہ ناکام رہی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی سزا معطلی کے خلاف نیب کی اپیل خارج

عدالت کا کہنا تھا کہ پاکستان اور نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ کیا گیا ایک سمجھوتہ غلط طریقے پر مسترد کیا اور کمپنی کو ہرجانے ادا کیے جانے کا حکم دیا۔

براڈ شیٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ جون 2000 میں اثاثہ برآمدگی کے سمجھوتے کی غرض سے قائم کی گئی تھی، جس نے ریاست، اداروں اور بدعنوانی کے ذریعے بیرونِ ملک لے جائی جانے والے رقم کے لیے اس وقت کے صدر اور نیب کے ساتھ مل کر کام کیا۔

اسی براڈ شیٹ کے مطابق یہ کمپنی خصوصی طور پر اثاثہ اور فنڈ برآمدگی کے لیے بنائی گئی تھی اور اسی لیے ایسی چیزوں کی معلومات حاصل کرنے اور ریاست کو واپس کرنے سے منسلک ہے۔

بعدازاں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے شریف خاندان اور دیگر حکومتی عہدیداروں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کا کھوج لگانے کے لیے کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔

اس حوالے سے وکیل اسٹارٹ نیو برجر کا کہنا تھا کہ شریف خاندان براڈ شیٹ کا ’اعلیٰ ترین ہدف‘ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 'ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ غلط وقت پر سنایا گیا'

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے کی گئی درخواستوں کی بنیاد ہر برطانوی حکام نے ایون فیلڈ ان کے حوالے کردیا لیکن ہم ان اثاثوں ہر دعویٰ دائر کررہے ہیں۔

براڈ شیٹ کی جانب سے دعویٰ دائر کرنے پر ردِ عمل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے ڈان کو بتایا کہ ایون فیلڈ اس شخص کے نام پر ہے جو اس کے مالک ہیں اور چونکہ وہ حکومتی تحویل میں نہیں لہٰذا اس پر دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت ’مقررہ مدت کے اندر جواب دے گی‘ اور تاخیر کی وجہ براڈ شیٹ کی جانب سے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد کے دعوے کو قرار دیا۔