سندھ: 6 ماہ میں 50 خواتین، 28 مرد غیرت کے نام پر قتل
کراچی: قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوجداری انصاف کے نظام کو درپیش متعدد چیلنجز کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بنیادی طور پر سندھ کے دیہی علاقوں میں نام نہاد غیرت یا کارو کاری کے نام پر قتل کے واقعات بلاروک ٹوک جاری رہے اور رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران 70 سے زائد لوگوں کق قتل کردیا گیا۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس طرح کے بیشتر کیسز میں تحقیقات بے نتیجہ رہیں اور کسی کو بھی انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا گیا جب کہ کچھ ملزمان کو بری کرنے کی اجازت دی گئی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ جنوری سے جون 2019 تک سندھ کے مختلف حصوں میں کچھ 78 لوگ قتل ہوئے جبکہ کاروکاری کے نام پر 65 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، تاہم ان میں سے 90 فیصد کیسز مختلف وجوہات کے باعث زیرالتوا ہیں، اس کے علاوہ زیادہ تر کیسز میں پولیس کی تحقیقات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔
مزید پڑھیں: خیرپور: کاروکاری کے الزام میں دو جوڑے قتل
ادھر ذرائع نے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 'ان 78 متاثرین میں سے 50 خواتین اور 28 مرد ہیں'، سندھ کے ' مختلف حصوں میں غیرت کے نام پر قتل کی کُل 65 ایف آئی آر درج ہوئیں اور ان میں سے 60 کیسز میں چارج شیٹ فائل کی جاچکی، تاہم اب بھی 57 مقدمات زیرالتوا ہیں اور کسی کیس میں کوئی سزا نہیں ہوئی لیکن اس سب عمل کے دوران 3 لوگ بری ہوئے جبکہ زیادہ تر کیسز میں ملزم متاثرین کے قریبی رشتے دار ہیں'۔
تاہم انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام کی زیر صدارت حالیہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں تحقیقات سے متعلق پولیس کے تنظیمی ڈھانچے میں تشویش پائی جاتی ہے۔
واضح رہےکہ گزشتہ ماہ آئی جی کلیم امام نے کاروکاری سے متعلق تفتیش میں پولیس کی کارکردگی کا جائزہ لیا تھا۔
آئی جی سندھ نے ان مقدمات کی رپورٹ طلب کرلی
دوسری جانب سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل نے تفتیش کاروں کو ہدایت دی کہ وہ صوبے بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں سزا اور رہائی سے متعلق ہر کیس کی بنیاد پر تفصیلی رپورٹ تیار کریں۔
ساتھ ہی انہوں نے متعلقہ حکام کو یہ ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تفیتش میں کوئی خامی نہ رہے اور عدالتوں کے سامنے بھی اس کو مناسب طریقے سے پیش کیا جائے۔
اسی اجلاس میں ڈی آئی جی سکھر کو کہا گیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیں اور ان کی مشاورت سے ایک مسودہ تجویز دیں تاکہ کاروکاری کی لعنت کو ختم کرنے میں مدد ملے۔
واضح رہے کہ حکام کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود یہ گھناؤنا رجحان جسے دیہی نظام کا حصہ قرار دیا جاتا ہے، وہ بلاروک ٹوک جاری ہے، تاہم پولیس کے لیے اس طرح کے قتل کی موثر طریقے سے تفتیش کرنا مشکل ہے کیونکہ زیادہ تر معاملات میں متاثرین اور ملزمان ایک ہی خاندان یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا کہ 'غیر کے نام پر قتل ایک سماجی مسئلہ ہے اور اس کی جڑی اس قبائلی ثقافت اور ذہنیت میں موجود ہیں، جہاں خواتین کو مردوں کے تابع سمجھا جاتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'معاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے اور اس طرح کی ذہنیت کی تبدیلی میں ایک طویل مدتی حل مضمر ہے، جہاں تک فوجداری انصاف کے جواب کا تعلق ہے تو محکمپ پولیس نے ان نام نہاد غیر کے نام پر قتل سے نمٹنے کے لیے کئی مفید اقدامات اٹھائے ہیں، جس میں یو این ڈی پی کے اشتراک سے غیر کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے منصوبے پر عمل درآمد اور پولیس افسران کو حساس بنانے کے لیے تربیتی ماڈیول شامل ہے'۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) میں سینٹرلائزڈ انسانی حقوق سیل قائم کیا گیا ہے جو اس طرح کے واقعات یا کیسز کی نگرانی کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: کاروکاری کے الزام میں 12 سالہ بچی قتل، والد گرفتار
تاہم ڈی آئی جی عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا کہ ' استغاثہ، پولیس اور عدلیہ کے مابین زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی کی ضرورت ہے کیونکہ پراسیکیوٹرز اور ججز کو اس طرح کے قتل کے مقدمات کی خصوصی سمجھنے کے لیے تربیت کی ضرورت ہے، جہاں قتل کا مقصد (نام نہاد) غیرت ہو'۔
فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ
علاوہ ازیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون سازوں کا ماننا ہے کہ متعلقہ خاندانوں کے رویوں اور تحقیقات میں خامیوں کے علاوہ پولیس کا'غیرت کے نام پر قتل' کے مقدمات کی طرف نقطہ نظر اور مجموعی طور پر فوجداری انصاف کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے قوانین میں بہت زیادہ تبدیلیوں کا مطالبہ کیا تاکہ اس سفاکانہ رجحان کے لیے ثقافت کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اصل قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔