عالمی سفارتی میلے میں نئی صف بندی، کون کس کے ساتھ کھڑا ہے؟

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس چین امریکا تجارتی تنازع، تارکینِ وطن کے یورپ امریکا میں داخلے پر جھگڑے، آبنائے ہرمز میں تیل سپلائی کو لاحق خطرات، ماحولیاتی تبدیلیوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ، کشمیر پر پاک بھارت کشیدگی اور غربت کے خاتمے کے ملینیم ڈویلپمنٹ اہداف کے پیشِ نظر اہم رہا۔
تجارتی تنازع کے اہم فریق چین کے صدر شی جن پنگ حسبِ معمول غائب رہے، صدر ولادیمیر پیوٹن کو بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں زیادہ دلچسپی کبھی نہیں رہی۔ داخلی سیاسی بحران میں گھرے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو، کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈیو اور امریکی عتاب کے شکار وینزویلا کے صدر نکولس مدورو نے بھی شرکت نہیں کی۔
193 رکنی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک امریکی صدر کے علاوہ ایرانی صدر حسن روحانی، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان، بھارت کے نریندر مودی، سعودی وزیرِ خارجہ، تُرک صدر سمیت کئی ملکوں کے رہنماؤں پر ان کے ملکوں کے عوام کی نظریں لگی تھیں۔ ہر کسی نے اپنے ایجنڈے کے مطابق سال کے سب سے بڑے سفارتی ایونٹ میں خیالات کا اظہار کیا۔ کسی نے سفارتی اطوار کے مطابق ڈھکا چھپا لب و لہجہ اپنایا تو کوئی اپنی سیاسی ضروریات کے تحت شعلہ بیانی کرتا رہا۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں رہنماؤں کے خطابات سے ان کے موڈ اور سفارتی ترجیحات کا کچھ اندازہ ہوا لیکن اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں اصل سرگرمی جنرل اسمبلی ہال سے باہر ہوتی ہے جہاں فارن سروس عہدیدار اپنے ملکوں کے سربراہوں کی سائیڈ لائن ملاقاتوں کے لیے گراؤنڈ ورک کرتے اور رکاوٹیں دور کرتے ہیں۔

سال کے سب سے بڑے سفارتی ایونٹ کا مرکز جنرل اسمبلی ہال ہے لیکن مندوبین کا لاؤنج اور اقوامِ متحدہ کا بار وہ اصل مقامات ہیں جہاں سفارتی سرگرمیاں عروج پر ہوتی ہیں۔ مندوبین لاؤنج اور بار میں ہی پالیسی طے ہوتی ہے، سفارتی داؤ پیچ آزمائے جاتے ہیں اور مستقبل کے منصوبے تشکیل پاتے ہیں۔
سائیڈ لائن ملاقاتوں کے حوالے سے اس خطے کے لیے سب سے اہم اجلاس امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے 4 فریقی اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے وزراء خارجہ کا اجلاس تھا۔ یہ چہار فریقی اسٹریٹجک ڈائیلاگ ’کواڈ‘ کہلاتا ہے۔ کواڈ، انڈوپیسفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے نئے سرے سے فعال کیا گیا ہے۔
بھارت اس سٹرٹیجک ڈائیلاگ کو جوائنٹ سیکرٹری سطح سے وزارتی سطح تک لانے کی مخالفت کرتا رہا ہے لیکن اس سال یہ وزارتی اجلاس ہوا، جارج ڈبلیو بش دور میں شروع ہونے والا یہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ پچھلے سال نومبر میں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ اس سے پہلے بھارت چین کی ناراضگی کے ڈر سے اس ڈائیلاگ کو وزارتی سطح پر لانے کی مخالفت کرتا رہا لیکن اس سال جموں و کشمیر اور لداخ معاملے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایسا رخنہ پڑا کہ بھارت کی پالیسی میں تبدیلی آگئی۔
چہار فریقی ڈائیلاگ کے بعد باضابطہ بیان جاری نہیں ہوا تاہم چاروں وزراء خارجہ نے اس اجلاس کی خبر ایک ٹوئیٹ کے ذریعے دی۔ آسڑیلوی وزیرِ خارجہ نے بھارتی اخبارات کے رابطے پر ای میل پیغام میں کہا کہ چاروں ملکوں نے اس اجلاس میں اپنی مشترکہ اقدار، بحری گزرگاہوں کی سیکیورٹی، انفرا اسٹرکچر، خطے کو باہم ملانے والے منصوبوں اور اصولوں پر مبنی فریم ورک میں تعاون کے عزم کا اعادہ کیا۔
ڈائیلاگ کے رکن جاپان کے وزیراعظم نے اس اجلاس کے ایک دن بعد برسلز میں یورپی کمیشن کے صدر جون کلاڈ جنکر کے ساتھ ملاقات میں ایک منصوبے پر دستخط کیے جسے ‘یورپ ایشیا کنکٹیوٹی پلان’ کا نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کو یورپ ایشیا لنک منصوبہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مقابلے میں لایا گیا ہے۔ چہار فریقی ڈائیلاگ میں انفرا اسٹرکچر اور کنکٹیوٹی کی جو بات کی گئی یہ اسی طرف اشارہ تھا۔
یورپ ایشیا لنک منصوبے پر دستخط کی تقریب میں جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے اور یورپی کمیشن کے سربراہ جون کلاڈ جنکر نے بیلٹ اینڈ روڈ اور چین کا نام لیے بغیر اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ پاکستان میں سی پیک بھی بیلٹ اینڈ روڈ کا ایک حصہ ہے جسے چین بیلٹ اینڈ روڈ کے ایک ماڈل منصوبے کے طور پر پیش کرتا آیا ہے۔ جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے نے چین پر ڈھکی چھپی تنقید میں کہا کہ خواہ ایک سڑک ہو یا ایک بندرگاہ، جب یورپی یونین اور جاپان کسی منصوبے کی تعمیر کی ذمہ داری لیتے ہیں تو ہم انڈوپیسفک سے مغربی بلقان اور افریقا تک پائیدار، اصولوں پر مبنی کنکٹیوٹی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بحیرہ روم سے بحر اوقیانوس تک جانے والے سمندری راستے کھلے رہنے چاہئیں۔ یورپی کمیشن کے سربراہ نے بھی چین پر بین السطور تنقید میں کہا کہ یورپی یونین ‘ قرض کے پہاڑوں’ کے بغیر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد دے گی۔
جاپان کے وزیراعظم شنزو ایبے اور یورپی کمیشن کے سربراہ نے وہی الفاظ اور لہجہ اپنایا جو چہار فریقی اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے بعد آسٹریلوی وزیرِ خارجہ کی ای میل میں اپنایا گیا اور انفرا اسٹرکچر منصوبوں پر بات کی گئی۔ اس کے علاوہ ایک اور پیش رفت اسی دن ہوئی جب جاپان کے وزیرِ خارجہ نے ڈیفنس وائٹ پیپر جاری کیا جس میں جاپان کے لیے سب سے بڑا خطرہ شمالی کوریا کے بجائے چین کو قرار دیا گیا۔
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن پر چار فریقی اسٹریٹجک ڈائیلاگ، برسلز میں یورپ ایشیا لنک منصوبے پر دستخط، جاپان کے ڈیفنس وائٹ پیپر کا اجرا ایک مربوط سفارتی کوشش کا نتیجہ ہے۔ یہ مربوط سفارتکاری اقوام متحدہ اسمبلی اجلاس کے دوران انجام کو پہنچی اور یہ جواب تھا چین کے ڈیفنس وائٹ پیپر کا جو اس سال جولائی میں جاری کیا گیا۔ اس سے پہلے چین نے 2015ء میں ڈیفنس وائٹ پیپر جاری کیا تھا اور اس سال کا ڈیفنس وائٹ پیپر صدر شی جن پنگ کے دور کا پہلا وائٹ پیپر ہے۔
‘نئے دور میں چین کا قومی دفاع ’کے نام سے وائٹ پیپر دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے بعد بدلتی ہوئی امریکی اسٹریٹجک تبدیلی کے ردعمل میں جاری کیا گیا۔ امریکا اب دہشتگردی کے خلاف جنگ کی پالیسیوں سے نکل کر چین اور روس سے مقابلے اور ممکنہ تصادم پر توجہ دے رہا ہے۔ چین کے ڈیفنس وائٹ پیپر میں اس بات کو اُجاگر کیا گیا کہ امریکا اور چین ایک دوسرے کے مقابل سپر پاورز ہیں اور چین اپنی افواج کو اس انداز سے جدید بنا رہا ہے کہ وہ ایک دن امریکا کو چیلنج کرنے کے قابل ہوگا۔ چین کے وائٹ پیپر میں امریکا کی 2017ء کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی اور 2018ء میں امریکا کے نیشنل ڈیفنس اسٹریٹجی کے نام سے جاری کیے گئے پیپرز کا بھرپور جواب ہے۔ ان پیپرز میں امریکا نے بھی چین کو اپنا واحد مدمقابل ملک قرار دیا تھا اور اسی تناظر میں فوجی تیاریوں کا ذکر کیا گیا تھا۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔