گھوٹکی ہنگامہ آرائی، فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے کی سازش تھی، رپورٹ
اسلام آباد: گھوٹکی میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اشتعال انگیز واقعات کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ واقعے کے پسِ پردہ محرکات فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے اور ہندو برادری میں خوف کی فضا پیدا کرنے کی سازش تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گھوٹگی میں ہندو برادری کی عبادت گاہوں (مندروں) پر حملے اور فسادات کی منصوبہ بندی پہلے سے تیار کی گئی تھی۔
مذکورہ تحقیقاتی وفد وزارت انسانی حقوق نے تشکیل دیا تھا جس کے لیے اراکین اسمبلی، وکلا، سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی اور انسانی حقوق کے رضاکار شامل تھے۔
خیال رہے کہ تحقیقاتی ٹیم کو ایک نجی اسکول کے طالبعلم کی جانب سے اسکول پرنسپل پر لگائے گئے توہین مذہب کے الزام اور گھوٹکی، لاڑکانہ کے مندروں میں توڑ پھوڑ کی تحقیقات کا ذمہ سونپا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: گھوٹکی: 'توہین مذہب' پر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف 3 مقدمات
وفد کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس اس واقعے کا مقدمہ درج کرنے میں بھی ہچکچاہٹ کا شکار تھی چنانچہ امن و عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رینجرز کو بلانا پڑ گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پولیس نے یہ حقیقت مدِ نظر نہیں رکھی کہ حملے منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے اور اس جرم میں کچھ بااثر افراد بھی شامل تھے اس کے علاوہ پولیس نے صورتحال کو سنبھالنے میں بھی سستی سے کام لیا‘۔
یہ بات بھی مدِ نظر رہے کہ رپورٹ مرتب کرنے سے قبل تحقیقاتی ٹیم نے گھوٹکی میں ہندو برادری کے رہنماؤں سے ملاقات کی جنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے تحت اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
بعدازاں وفد کے اراکین اس نتیجے پر پہنچے کہ گھوٹکی فسادات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی سازش تھے۔
مزید پڑھیں: گھوٹکی: اسکول پرنسپل پر توہین مذہب کا الزام، شہریوں کا احتجاج
دوسری جانب ہندو برادری نے پروفیسر کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کی عدالتی تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کیا۔
گھوٹکی میں کیا ہوا تھا؟
یاد رہے کہ 2 ہفتے قبل 15 ستمبر کو سندھ کے ضلع گھوٹکی میں ایک نجی اسکول کے طالبعلم کی جانب سے اپنے استاد پر توہین مذہب کا الزام لگانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے مقدمہ درج ہونے کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد نے گھر سے نکل کر مظاہرہ کیا تھا جس کے نتیجے میں علاقے کےحالات خراب ہوگئے تھے، اسی دوران کچھ شرپسندوں نے نہ صرف مندروں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا بلکہ اسکول میں گھس کر بھی ہنگامہ آرائی کی۔
اس کے علاوہ مقامی افراد نے ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے پولیس سے مذکورہ استاد کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ماہرین کا نمرتا چندانی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ پر شکوک و شبہات کا اظہار
جس پر وزیراطلاعات سندھ نے بتایا تھا کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا، یہ واقعہ ایک شخص کا ذاتی فعل تھا اس میں پوری ہندو برادری کا کوئی قصور نہیں اور واقعے کی مکمل غیر جانب دار تحقیقات کی جائیں گی۔
نمرتا چندانی کی پراسرار موت
اس کے ساتھ ٹیم کو یہ ذمہ داری بھی تفویض کی گئی تھی کہ لاڑکانہ کے میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طالبہ نمرتا کی پراسرار موت کی بھی تفتیش کرے۔
چنانچہ اسی تحقیقاتی وفد نے گزشتہ ہفتے پراسرار حالات میں مردہ پائی جانے والی بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی کے اہلِ خانہ سے بھی ملاقات کی اور اظہار تعزیت کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بی بی آصفہ ڈینٹل کالج (بی ایس ڈی سی) میں بیچلرز ان ڈینٹل سرجری (بی ڈی ایس) کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا مہر چندانی ہاسٹل کے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔
اس موت پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ طالبہ نے خودکشی کی تاہم اہل خانہ کی جانب سے خودکشی کی بات کو مسترد کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے 'نمرتا کی پراسرار موت' کی عدالتی تحقیقات کی اجازت دے دی
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں نمرتا کے بھائی ڈاکٹر وشال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں خود ڈاکٹر ہوں اور میں نے بھی لاش کا معائنہ کیا جس کے مطابق طالبہ کے گلے پر جس طرح کے نشان پائے گئے وہ خود کشی کے نہیں، اس کے علاوہ اس کی کلائیوں پر بھی زبردستی پکڑے جانے کے نشانات موجود تھے۔
بعدازاں اہل خانہ کے مطالبے پر حکومت سندھ نے معاملے کی شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کروائی تھی۔
چناچنہ سندھ حکومت نے 18 ستمبر کو باضابطہ طور پر نمرتا چندانی کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے عدالت سے جوڈیشل انکوائری کی درخواست کردی تھی۔
جس پر 26 ستمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے نمرتا چندانی کی پراسرار موت کی عدالتی تحقیقات کی اجازت دے دی تھی۔