دنیا

افغانستان میں صدارتی انتخاب: بم دھماکوں میں دو افراد ہلاک

96 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کے لیے 5 ہزار 373 پولنگ سینٹرز بنائے گئے، تاہم خطرات کے باعث سینکڑوں پولنگ اسٹیشنز بند ہیں، رپورٹ
|

افغانستان میں صدارتی انتخاب کا عمل سخت سیکیورٹی میں مکمل ہوگیا جبکہ اس دوران کابل، جلال آباد اور قندھار سمیت دیگر علاقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں پر بم دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم دو افراد ہلاک اور 27 سے زائد زخمی ہوگئے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کے مطابق نگرہار صوبے کے گورنر کے ترجمان عطا اللہ غویانی بتایا کہ جلال آباد میں پولنگ اسٹیشن کے قریب بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور 2 افراد زخمی ہوگئے۔

مزیدپڑھیں: صدارتی انتخاب سے قبل طالبان کے افغانستان میں حملے، 2 دھماکوں میں 48 افراد ہلاک

علاوہ ازیں قندھار میں ہسپتال کے ڈائریکٹر مقامی صحافی کو بتایا کہ ’قندھار کے پولنگ اسٹیشن میں بم دھماکے سے 16 افراد زخمی ہوگئے‘۔

اے ایف پی کے مطابق ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ملک بھر میں پولنگ سینٹر پر طالبان کے حملوں کے نتیجے میں دو شہری جاں بحق اور 27 زخمی ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کابل، کندوز، ننگرہار، بامیان اور قندھار سمیت متعدد صوبوں سے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

طالبان کی دھمکیوں کے باوجود صدارتی انتخاب

انتخاب کے لیے 5 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن بنائے گئے—فوٹو: طلوع نیوز

جنگ زدہ افغانستان میں عسکریت پسند گروہ طالبان کے حملوں کے خطرات کے باوجود صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا آغاز مقررہ وقت پر ہوگیا جو شام سات بجے تک بلاتعطل جاری رہا۔

انڈیپنڈنٹ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پولنگ کے عمل کو لوگوں کی لمبی قطاروں کے باعث 2 گھنٹے بڑھادیا گیا تھا جو 7 بجے بند ہوگیا۔

افغان خبررساں ادارے طلوع نیوز نے رپورٹ کیا کہ آزاد الیکشن کمیشن کے مطابق تقریباً 96 لاکھ لوگ الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹرڈ ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی وجہ سے صدارتی انتخاب دو مرتبہ تعطل کا شکار ہوچکے ہیں، چند دن قبل ہی مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان نے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے حملوں کی دھمکی دی تھی۔

’مجموعی طور پر 5 ہزار 373 پولنگ اسٹیشنز قائم‘

الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 5 ہزار 373 پولنگ سینٹرز بنائے گئے ہیں تاہم رپورٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ 445 پولنگ سینٹر انتخاب کے دن بند ہیں۔

اگر انتخابی امیدواروں کی بات کریں تو ابتدائی طور پر صدارتی انتخاب کے لیے 8 امیدوار میدان میں تھے لیکن ان میں سے 5 امیدوار، محمد حنیف اتمار، نورالحق علومی، شاہد محمد ابدالی، زلمے رسول اور محمد ابراہیم آلوکوزئی نے خود کو اس دوڑ سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں موجودہ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ جو گزشتہ 5 سال سے قومی اتحادی حکومت چلارہے ہیں نئے صدارتی انتخاب میں ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔

افغان صدارتی انتخاب سے متعلق وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ تقریباً 72 ہزار سیکیورٹی فوسز کے اہلکار انتخاب کے تحفظ کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ میں خبرایجنسی رائٹرز کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے خطرے کے باوجود لاکھوں افغانوں کا صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا امکان ہے۔

طالبان نے افغانوں کو انتخاب سے دور رہنے کا کہا تھا—فوٹو: رائٹرز

70 سالہ اشرف غنی اور 59 برس کے عبداللہ عبداللہ 2014 سے ایک ٹوٹے پھوٹے شراکتی اقتدار کے انتظامات کے ذریعے حکمرانی کر رہے ہیں، ان کی فورسز طالبان کے خلاف لڑ رہی ہیں، یہاں تک کہ جب امریکا کے ساتھ امن مذاکرات جاری تھے اس وقت بھی یہ ان کے خلاف نبرد آزما تھے۔

تاہم 2001 میں امریکا کی جانب سے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب طالبان کے پاس افغانستان کا سب سے بڑا علاقہ قبضے میں ہے۔

ادھر اشرف غنی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا تھا کہ 'افغانستان کے لوگ اپنے آزاد اور شفاف ووٹوں کا دفاع کریں گے اور میں جانتا ہوں کہ افغان جمہوریت کا تحفظ کریں گے'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند گروپ افغان عوام کے آزادی کے فطری جذبے اور ترقی کی خواہش کو شکست نہیں دے سکتے۔

تاہم اس انتخابی مہم کے دوران طالبان کی جانب سے کیے گئے حملوں میں 170 شہری قتل اور 300 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔

یہی نہیں طالبان کی جانب سے ایک حالیہ بیان میں خبردار کیا گیا تھا کہ 'انتخاب کے روز پولنگ اسٹیشنز سے دور رہیں'۔

ایک روز قبل طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ گروپ نے شمالی سمن گن صوبے کے ضلع درہ سوف پایان پر بھی قبضہ کرلیا، جو ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کی نشانی ہے۔

علاوہ ازیں 34 صوبوں میں انتخاب کے لیے افغان حکومت کی جانب سے 9 کروڑ ڈالر مختص اور بین الاقوامی ڈونرز کی جانب سے 5 کروڑ 90 لاکھ ڈالر دیے گئے لیکن اس کے باوجود طالبان کے خطروں کے پیش نظر اسکولز اور مساجد میں قائم سینکڑوں پولنگ اسٹیشنز بند رہنے کی اطلاعات ملیں۔

ادھر اشرف غنی کے حریف عبداللہ عبداللہ نے افغان صدر پر انتخابی مہم میں اختیارات اور حکومتی وسائل کے غلط استعمال کا الزام بھی لگایا۔

انہوں نے رائٹرز کو کہا کہ 'وہ (اشرف غنی) امن کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں اور یہ اس عہدے لیے موزوں نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہاں 'بڑے پیمانے پر جعلی انتخاب ہوتے ہیں اور کسی کی فتح کا اعلان کیا جاتا ہے تو اسے منظور نہیں کیا جائے گا'۔

صدارتی انتخاب کے انعقاد پر پاکستان کی مبارک باد

دفترخارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'افغانستان میں خطرناک صورت حال اور رکاوٹوں کے باوجود چوتھے صدارتی انتخاب کے انعقاد پر پاکستان نے افغان حکومت اور عوام کو مبارک باد دی ہے'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'افغانستان کے عوام جمہوریت کے تسلسل کے حوالے سے واضح رجحان پر خاص کر تعریف کے مستحق ہیں'۔

دفترخارجہ نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ 18 سالہ تنازع کے خاتمے کے لیے افغانوں کی قیادت میں کے مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل کے لیے نئے حکومت کے ساتھ بھی موجودہ امن عمل کو آگے بڑھایا جا سکے گا۔

بیان میں کہا گیا کہ 'پاکستان، افغانستان کی نئی حکومت کو اپنا تعاون جاری رکھے گا'۔

پاکستان نے اپنے بیان میں زور دیا ہے کہ 'مضبوط، آزاد، پرامن اور خوش حال افغانستان خطے کے امن و استحکام کے لیے بنیاد ہے'۔