غیرقانونی رقوم کی ترسیل ترقی پذیر ممالک کیلئے تباہ کن ہے، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غیرقانونی رقوم کی نقل و حرکت پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کو متاثر کرنے کے ساتھ ترقی پذیر ممالک کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔
اقوام متحدہ کے تحت ترقی کے لیے فنڈنگ پر مکالمے میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ لوگ منی لانڈنگ کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں غربت، اموات، تباہی اور انسانی ترقی پر پڑنے والے اثرات سے ناواقف ہیں۔
مزیدپڑھیں: منی لانڈرنگ کو ناقابل ضمانت جرم بنائے جانے کا امکان
عمران خان نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں پاکستان کی کرپٹ قیادت نے مجموعی طور پر اتنا قرضہ لیا جو گزشتہ 60 برس میں بھی نہیں لیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان منی لانڈرنگ کے خاتمے اور لوٹی ہوئی رقم کی واپسی کے لیے اقدامات کررہا ہے‘۔
علاوہ ازیں وزیراعظم نے واضح کیا کہ ’ان کی حکومت نے بیرون ملک جائیداد بنانے والے پاکستانیوں کی نشاندہی کرلی ہے جبکہ قانونی سقم کو دور کرکے منی لانڈرنگ انتہائی مشکل بنادی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں کہ امیر ملک آف شور کمپنیوں کی اجازت کیوں دیتے ہیں؟۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ: آف شور کمپنیاں خریدار کا نام ظاہر کرنے کی پابند ہوں گی
انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کو مخاطب کرکے کہا کہ ’امیر ممالک منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ اس طرح انہیں فائدہ پہنچتا ہے‘۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے امیر ملکوں میں سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیکس چوری، ٹیکس کی عدم ادائیگی، کرپشن اور منی لانڈرنگ کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک اربوں ڈالر سے محروم ہوجاتے ہیں جو ان کی ترقی میں خرچ ہوسکتے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے مشترکہ لائحہ عمل وقت کی اہم ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل اکانومی پر ٹیکس ادائیگی ایک نیا چینلج ہے جس کے لیے بھرپور تعاون ضروری ہے۔
کانفرنس میں شریک دیگر رہنماؤں اور اقتصادی ماہرین نے منی لانڈرنگ سمیت دیگر غیرقانون رقوم کی نقل و حرکت اور اس کے نقصانات سے متعلق گفتگو کی۔
مزیدپڑھیں: حکومت کا منی لانڈرنگ سے متعلق سزائیں سخت کرنے کا فیصلہ
اس ضمن میں تھامس رائٹرز کی ماہر اقتصادیت سینہا شاہ نے بتایا کہ عالمی بینگ نظام میں گردش ہونے والی تقریباً 86 فیصد رقم ’غیرقانونی‘ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہر سال غیرقانونی رقوم کی نقل و حرکت کے باعث 15 کھرب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ جنگ نہیں جیتے رہے کیونکہ نقصان ہونے والی رقم کا صرف ایک فیصد حاصل کرپاتے ہیں‘۔