دنیا

جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد

محمد بن سلمان نے استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں 11 ماہ قبل قتل ہونے والے صحافی کے حوالے سے پہلی مرتبہ بات کی۔

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہ صحافی جمال خاشقجی قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اقتدار میں ہوا۔

خیال رہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے استنبول میں قائم سعودی سفارتخانے میں صحافی کے قتل کے حوالے سے اس سے قبل عوامی سطح پر کبھی بات نہیں کی تھی۔

یاد رہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور دیگر مغربی حکومتوں نے الزام لگایا تھا کہ محمد بن سلمان نے صحافی خاشقجی کے قتل کے احکامات جاری کیے تھے تاہم سعودی حکام کا کہنا تھا کہ اس میں ولی عہد کا کوئی کردار نہیں تھا۔

جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پر غم و غصہ سامنے آیا تھا جس کی وجہ سے سعودی ولی عہد کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا کوئی دورہ نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب خاشقجی قتل کا ’اوپن ٹرائل‘ کرے، اقوام متحدہ

'دی کراؤن پرنس آف سعودی عرب' کے نام سے دستاویزی فلم کے پری ویو میں پی بی ایس کے مارٹن اسمتھ سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ 'یہ میرے اقتدار کے دوران ہوا، میں اس کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں'۔

ابتدائی طور پر انکار کے بعد سعودی بیانیے نے قتل کی ذمہ داری آپریشن کرنے والے حکام پر ڈال دی تھی۔

واضح رہے کہ رواں سال ستمبر کے وسط میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق ریکارڈنگ کی نئی تفصیلات سامنے آئی تھیں جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ میرا منہ بند نہ کریں، مجھے دمہ ہے۔

ترک حکومت کے حامی اخبار ’ڈیلی صباح ‘ میں شائع رپورٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے نئے دستاویزات جاری کی گئی تھیں جو مبینہ طور پر سعودی صحافی کے آخری لمحات کی ریکارڈنگ ہے۔

اس سے قبل دسمبر 2018 میں بھی جمال خاشقجی کے قتل سے قبل آخری الفاظ کی آڈیو کی ٹرانسکرپٹ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے قتل کرنے والوں کو اپنا دم گھٹنے کی شکایت کی تھی۔

مارٹن اسمتھ نے جب سعودی ولی عہد سے سوال کیا کہ ان کے علم میں لائے بغیر قتل کیسے ہوا تو محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس 2 کروڑ لوگ ہیں، ہمارے پاس 30 لاکھ سرکاری ملازمین ہیں'۔

مارٹن اسمتھ نے سوال کیا کہ 'کیا وہ آپ کا جہاز بھی لے سکتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل: محمد بن سلمان کی بادشاہت خطرے میں پڑگئی؟

ولی عہد نے جواب دیا کہ 'میرے پاس کئی عہدیدار اور وزرا ہیں جو معاملات کو دیکھتے ہیں، وہی ذمہ دار ہیں، ان کے پاس اختیار ہے ایسا کرنے کا'۔

واضح رہے کہ امریکی انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے جون میں کہا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ریاض پر جمال خاشقجی قتل کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

سعودی عرب کے 11 مشتبہ افراد کو خفیہ کارروائی کرنے پر ٹرائل پر رکھا گیا تاہم اب تک صرف چند سماعتیں ہوئی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی ولی عہد اور دیگر سعودی حکام کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا گیا تھا۔

جمال خاشقجی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار تھے جنہیں 2 اکتوبر کو آخری مرتبہ سعودی سفارتخانے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا جہاں وہ اپنی شادی کے لیے ضروری دستاویزات لینے کے لیے گئے تھے۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا۔

تاہم ترک حکام نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

17 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا۔

دریں اثنا 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

علاوہ ازیں امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔

مزید برآں دسمبر میں امریکی سینیٹ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دینے سے متعلق قرارداد منظور کی جس میں سعودی حکومت سے جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ داران کا احتساب کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

رواں برس جنوری میں ریاض کی عدالت میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے کی پہلی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے 11 میں سے 5 مبینہ قاتلوں کی سزائے موت کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم اقوام متحدہ نے ٹرائل کو 'ناکافی' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح ٹرائل کی شفافیت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: ’جمال خاشقجی کا قتل سعودی ولی عہد کے حکم پر ہوا‘

بعدازاں اپریل میں ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کے قتل کیس میں جن 11 افراد کے خلاف ٹرائل چل رہا ہے ان میں سعودی ولی عہد کے شاہی مشیر سعود القحطانی شامل نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ نے جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش کے لیے 3 رکنی ٹیم تشکیل دی تھی، ٹیم کی سربراہ نے جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں گرفتار مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔

بعدازاں جون میں اقوام متحدہ نے تحقیقاتی رپورٹ میں کہا تھا کہ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سینئر سعودی عہدیدار صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔

اس دوران سعودی عرب کی جانب سے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے 4 بچوں کو 'خون بہا' میں لاکھوں ڈالر مالیت کے گھر اور ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں ڈالر رقم دینے کا انکشاف بھی سامنے آیا تاہم جمال خاشقجی کے خاندان نے سعودی انتظامیہ سے عدالت کے باہر مذاکرات کے ذریعے تصفیہ کی تردید کردی تھی۔