پاکستان

سپریم کورٹ: ٹیکس فراڈ میں ملوث جعلی کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر سے رپورٹ طلب

یہ کروڑوں روپے کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے 9 کروڑ روپے غائب ہوگئے اور کوئی خبر نہیں، قائم مقام چیف جسٹس کے ریمارکس
|

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے جعلی کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس فراڈ کرنے والے افراد سے رقم وصول کرنے کے اقدامات پر 2 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت عظمیٰ میں قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اس دوران چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ جعلی کمپنیاں بنانے میں ملوث 3 ملزمان کے خلاف انکوائری کے آغاز کے لیے سمری منظوری کے لیے وزیراعظم آفس کو بھجوادی ہے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس منجمد کرنے میں تاخیر سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف

اس پر عدالت نے کہا گیا کہ اس کیس میں پیش رفت سے متعلق 2 ہفتوں میں تحریری رپورٹ جمع کروائیں جس پر چیئرمین نے جواب دیا کہ 2 ہفتوں میں یہ مشکل ہے اس کے لیے مزید وقت کی ضرورت ہے تاہم عدالت نے ان کی مزید وقت دینے کی درخواست مسترد کردی۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ 'یہ 9 کروڑ روپے کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے 9 کروڑ روپے غائب ہوگئے اور کوئی خبر نہیں'۔

انہوں نے چیئرمین نیب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی ایک اسکینڈل نہیں اس طرح کے لاکھوں اسکینڈل ہورہے ہیں، حکومت جتنا ریونیو کمارہی ہے دوسری جانب سے یہ اسکینڈل کی صورت میں جارہا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر 'اپنے ملازمین کو بچا' رہے ہیں، اس معاملے میں کون ہیں جن پر شبہ ہے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ ایف بی آر میں کتنے ملازمین ہیں؟ جس پر شبر زیدی نے جواب دیا کہ 21 ہزار 500 ملازمین اس ادارے سے وابستہ ہیں، اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ ایف بی آر ان ملازمین کی تنخواہوں جتنی تو وصولی بھی نہیں کرتا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں لاکھوں غیر رجسٹرڈ صنعتی و کمرشل یونٹس کو نوٹس

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ جو جعلی کمپنیاں بنا کر ٹیکس فراڈ میں ملوث پائے جائیں ان سے رقم وصول کرنے کے ساتھ ساتھ 5 سال سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت کو ملتوی کردیا۔

واضح رہے کہ ایف بی آر جعلی اکاؤنٹس اور گھوسٹ کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس فراڈ کرنے والے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

رواں سال مئی میں ایف بی آر کے ڈائریکٹریٹ جنرل برائے براڈننگ ٹیکس بیس نے چینی اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں جعلی اکاؤنٹس کے نیٹ ورک کے ذریعے فروخت اور انکم ٹیکس کے بڑے فراڈ کا انکشاف کیا تھا۔