نقطہ نظر

وادی بروغل و کرومبر جھیل: آنکھ محوِ حُسنِ تماشا ہے ابھی

واپس مڑتے جھیل پر آخری نگاہ ڈالی۔ وہی حسرت بھری نگاہ جس سے انسان اس نگینے کو دیکھتا ہے جس کو وہ ہمیشہ کیلئے نہ پاسکتا ہو

’جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دور جا چکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔‘ (ایک واخی گیت کا ترجمہ)

نیلی جھیل پر پہلے پہر کی ٹھنڈی دھوپ اُتر آئی تھی۔ میں ہلکے بخار و تھکن میں مبتلا جھیل کنارے اُگی گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ آنکھیں موندے بے سُدھ پڑا دھوپ کی تمازت کو اپنے جسم میں جذب کرتا رہا۔ یہ ستمبر کا مہینہ تھا۔ پہاڑوں پر بُلندی پر واقع جھیلوں پر ٹھٹھرتی صبحوں اور کپکپاتی شاموں کے موسم کا آغاز ہوچکا تھا۔

ستمبر تبدیلی کا مہینہ۔ خزاں کی آمد کا پیام دیتی تیز ہواؤں کی رُت۔ میرا پورٹر سیف اللہ قریب آ کر بولا، ’صاحب، چائے دوسری بار بھی ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ چائے پیو گے تو طبیعت فریش ہوجائے گا۔ تم کو سردی لگ گیا ہے۔ میں پھر سے گرم کرکے لاتا ہوں صاحب،‘ اوندھے پڑے میں نے اسے ’ہوں‘ میں جواب دیا۔

جھیل کنارے دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو روشنی کی کرنیں نیلے پانیوں پر رقص کرتے آنکھوں کو چُندھیانے لگیں۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ سامنے حدِ نگاہ تک نیلگوں پانی ہی پانی تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بولا ’صاحب چائے۔‘


گاڑی لواڑی ٹنل میں داخل ہوئی تو رات سفر میں بیت چکی تھی۔ اُفق پر روشنی پھوٹ رہی تھی۔ لواڑی ٹنل خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کو ضلع چترال سے ملاتی ہے۔ یہ پاکستان کی 10 کلومیٹر طویل سب سے لمبی سرنگ ہے۔ چترال کے باسی پاکستان کے دیگر علاقوں کا رخ کرنے کے لیے لواڑی پاس کا ہی استعمال کرتے تھے۔

یہ تنگ درہ موسمِ سرما کے 5 ماہ برف کی وجہ سے آمد و رفت کے لیے معطل رہتا جس بنا پر مقامی آبادی شدید مشکلات کا شکار رہتی۔ چترال کا زمینی رابطہ ملک سے منقطع ہوجایا کرتا اور کھانے پینے کی اشیا کی رسد براستہ افغانستان ہوا کرتی۔ بھٹو صاحب نے 70ء کی دہائی میں لواڑی ٹنل منصوبے کا اعلان کیا مگر 3 دہائیوں تک اس منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو پایا، پھر پرویز مشرف صاحب نے اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا۔ 
گاڑی لواڑی ٹنل میں بھاگتی رہی۔ سرنگ سے باہر نکلنے تک صبح پھیل رہی تھی۔ دروش کے آتے آتے دھوپ پہاڑوں پر اُتر آئی تھی۔ وادی آدھی سائے میں تھی اور آدھی دھوپ میں۔ دروش بازار میں بریک لگی تو ایک پختون بچہ ہاتھ میں کیتلی و کپ اٹھائے میری گاڑی کے شیشے کے قریب آکر نیلی آنکھیں پھیلاتے، کیتلی چھنکاتے ہوئے بولا، ’صاحب چائے‘۔


میں نیلی جھیل کنارے بت بنا بیٹھا رہا۔ سیف اللہ کے ہاتھ کی گرم چائے میرے دکھتے گلے کو راحت پہنچا رہی تھی۔ جھیل کا پانی قدرے ساکت ہونے لگا۔ وادی میں بہتی ہوا رُک چکی تھی۔ جھیل کو گھیرے ہوئے برف پوش پہاڑوں کا عکس پانیوں پر جھلکنے لگا تھا۔ سیف اللہ قریب آکر بیٹھا اور بولا ’صاحب! ابھی آپ کا طبیعت اچھا لگ رہا ہے، فوٹوگرافی نہیں کرو گے کیا؟‘ میں نے اسے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’تم چاہتے ہو کہ گوتم کی روح اینسل ایڈمز سے ملاقات کرے (یعنی مناظر پر دھیان لگانا چھوڑ کر کیمرے میں مشغول ہوجاؤں)؟‘ پورٹر کو جواب سمجھ نہ پڑا تو وہ بس مسکرا دیا۔ خیر میں نے کیمرا تھاما اور جب جھیل کنارے اترنے لگا تو سیف اللہ کی آواز آئی ’صاحب آپ کی واپسی تک گرم چائے تیار رکھوں گا۔‘
دروش گزرا۔ دریائے چترال کی ہم سفری میں مسافر چلتا رہا۔ چترال کے آتے آتے ترچ میر کی چوٹی پر ٹھہری برف دھوپ سے چمک رہی تھی۔ اسی برف کا پانی بہتا ہوا دریائے چترال میں شامل ہوکر میرے قریب سے بہہ رہا تھا۔ ہاتھ گاڑی کے اسٹئیرنگ پر اور آنکھ ترچ میر کی چوٹی پر ٹکی رہی۔ شہر میں داخل ہوا تو شہر بیدار ہوچکا تھا۔

لوگوں کا ہجوم سڑکوں پر اُمڈ آیا تھا۔ ہر طرف اپنے دفاتر و دکانوں کو جاتے لوگ، اسکول جاتے بچے اور کالج جاتے نوجوان نظر آئے۔ گاڑی چترال کی شاہی مسجد کی جانب مُڑگئی۔ وہی ایک سجدہ جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات دیتا ہے۔ شاہی مسجد سابقہ مہتر چترال شجاع الملک نے تعمیر کروائی۔ اس کا طرزِ تعمیر سنہری مسجد پشاور سے ملتا ہے۔ سفید ٹھنڈے سنگِ مرمر پر گرم پیشانی مَس ہوئی تو روح تک تاثیر آنے لگی۔


چترال پہاڑی سلسلہ ہندوکش کے دامن میں بسی گنجان آباد وادی ہے۔ سلسلہ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر ہے۔ چترال ریاست ہوا کرتی تھی اور اس ریاست کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت اس نے سب سے پہلے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا۔ اس ریاست کے حکمران کو چترالی زبان میں کھوار اور اردو میں مہتر کہا جاتا تھا۔

برطانوی راج میں ریاست چترال آج کے گلگت بلتستان میں واقع ضلع غذر تک مشتمل تھی جس پر برطانوی پولیٹیکل ایجنٹ نگران ہوا کرتا۔ چترال کی آبادی 5 لاکھ کے قریب ہے۔ ضلع چترال کی 7 تحصیلیں ہیں۔ چمبر کن، دارکوت اور بروغل چترال کے مشہور درے ہیں۔ شندور، قزیدہ، چاں تار، یارخون اور بروغل یہاں کی مشہور وادیاں ہیں۔ ارکاری، لاسپور، تورکھو اہم گلیشیر جبکہ لاسپور، مولکہو، بمبوریت، لٹ کہو چترال کے مشہور دریا ہیں اور یہ تمام دریا دریائے چترال میں جا گرتے ہیں۔

چترال کے مشرقی جانب گلگت، سوات اور یاسین کے علاقے، مغربی جانب بدخشاں، چین اور روس جبکہ جنوبی کی طرف سے درہ لواری اور دیر کے علاقے واقع ہیں۔

چترال لاری اڈے پر واقع ایک ڈھابے سے چائے پی کر نکلنے تک دھوپ جھلسا رہی تھی۔ گرمی کی شدت کافی تھی۔ میرا ارادہ چترال سے بذریعہ جیپ 250 کلومیٹر دُور افغانستان کے صوبے واخان پٹی سے منسلک وادی بروغل تھی۔ وادی بروغل کو جاتا راستہ پتھریلا ہے جس پر جیپ ہی سفر کرسکتی ہے۔ جیپ کی تلاش اور مناسب کرائے کی جستجو میں کافی وقت بیت گیا۔ بالآخر سارا سامان ایک مقامی جیپ میں منتقل کیا اور نئے سفر کا باب کھلنے لگا۔ جیپ درہ شندور کو جاتی سڑک پر بھاگتی رہی۔ اس کی پہلی منزل مستوج تھی جہاں سے ایک پتھریلی سڑک درہ شندور جاتے راستے کو چھوڑ کر وادی یارخون و بروغل کو مُڑ جاتی ہے۔ یہ سفر چترال شہر سے وادی بروغل تک 16 گھنٹوں پر مشتمل تھا۔


سفر ہوتا رہا۔ میرا جیپ ڈرائیور وادی یارخون کے کسی گاؤں کا رہنے والا مقامی شخص تھا۔ مستوج کے قریب پہنچے تو سورج زوال کو آنے لگا تھا۔ اب جیپ کے اندر گرمی پریشان کر رہی تھی اور کچی سڑک پر چلنے کی وجہ سے ہم دھول مٹی سے لد چکے تھے۔ پھر جب مستوج آیا تو ڈرائیور نے جیپ وادی بروغل جانے والی پتھریلی سڑک کو چھوڑ کر مستوج بازار کی سمت کرلی۔ میں نے اچنبے سے پوچھا کہ یہ کہاں لے جا رہے ہو؟ ڈرائیور بولا، ’مستوج سے چائے پی کر نکلتے ہیں باس۔‘
میرا جیپ ڈرائیور مجھے ’باس‘ کہتا تھا۔ اسے غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ وقت گزار کر انگریزی کے کچھ حروف بھی یاد ہوچکے تھے جن کا بے جا استعمال وہ اپنی گفتگو میں جگہ جگہ کرتا اور بعض اوقات تو بلا مطلب اور بے تُکا کرتا۔ مجھے سُن کر ہنسی آ جاتی۔ مستوج بازار سے رخصت ہوئے تو ڈرائیور نے ایک دکان سے بہت سی ٹافیاں اور لالی پاپس لیے۔ وادی بروغل کی سمت سفر شروع ہوا تو اس نے جیپ میں USB لگا کر گانے لگا دیے۔ موسیقی کیا تھی، ہر گانے سے پہلے مدھ بھری مردانہ آواز اردو میں گونجتی۔
’سفیرِ درد محسن حیات شاداب کی آواز میں پیش خدمت ہے چترال کے مشہور شاعر شورش بنگش کا کلام‘


اور پھر چترالی زبان میں غزل چل پڑتی۔ ہر غزل میں بس شاعر ہی بدلتا باقی کمپوزیشن، گلوکار اور موسیقی مستقل تھی۔ سفیرِ درد محسن حیات شاداب گاتا رہا۔ مجھے خاک پلے پڑنا تھا۔ یارخون ویلی کا جیپ روڈ شروع ہوا تو ہڈی پسلی ایک ہوگئی۔ ایک تو یہ مقامی جیپوں کا سسپنشن نہیں ہوتا کہ جھٹکے سہہ سکے، دوسرا وہ سڑک نہیں بلکہ پتھروں کا قبرستان تھا۔

پھر ڈرائیور کو شاید بڑے پتھروں سے دشمنی تھی وہ انہیں کچلنے کی خاطر گاڑی ان کے اوپر سے جان بوجھ کے گزارتا اور جیپ ربڑ کے گیند کی طرح ہوا میں اچھلتی اور ٹِپہ کھا جاتی۔ پتھریلی سڑک کے ساتھ ساتھ دریائے یارخون بہہ رہا تھا جس کا پانی مٹیالے رنگ کا تھا۔ مٹی گھلے پانیوں پر سورج چمک رہا تھا۔ پتھریلے پہاڑ دھوپ سے تپے ہوئے تھے۔ سخت گرمی جان لینے کو آئی ہوئی تھی۔ باہر پانی اُچھلتا رہا اور اندر میں، جبکہ سفیرِ درد مسلسل گاتا رہا۔


اُچھل اُچھل کر جھٹکوں کی وجہ سے میری کمر اور گردن کے مہرے جواب دینے لگے۔ سفیرِ درد محسن حیات شاداب کی آواز سے کانوں میں تکلیف ہونے لگی اور نفسیاتی اثر ایسا پڑا کہ دماغ میں کھچاؤ محسوس ہونے لگا۔ وادی یارخون کا آغاز ہوا جو ڈرائیور کا وطن بھی تھا۔ یہاں ڈرائیور کی سلام دعا بہت زیادہ تھی۔ وہ ہر آنے جانے والے کو رُک کر ملتا۔ کبھی کبھی گاڑی سے اُتر کر ملتا اور پھر سفر شروع ہوجاتا۔

پھر 2 منٹ بعد اسے کوئی راہ چلتا مل جاتا اور بریک لگ جاتی۔ میں گرمی، درد اور سفیرِ درد کی وجہ سے پہلے ہی بیزار ہوچکا تھا۔ اور پھر جب ڈرائیور کی میل ملاقاتیں بھی شروع ہوگئیں تو میں خود کو کوسنے لگا کہ پہلے ہی سفر کمینہ ہے، دوجا جیپ کمینی ہے، تیجا سفیرِ درد کے علاوہ کوئی میوزک نہیں سننے کو اور اب ڈرائیور ہر قدم بریک مار کر دو تین منٹ کسی نہ کسی سے ملتا ہے۔
لیکن ڈرائیور کی ایک بات اچھی لگی۔ وہ جس سے ملتا، دم رخصت اسے شاپر سے ٹافی یا لالی پاپ نکال کر دیتا۔ وہ چاہے بزرگ ہو یا جوان یا بچہ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس عمل کی کوئی خاص وجہ؟ بولا ’ایسے ہی باس! لوگ خوش ہوجاتے ہیں۔ غریب لوگ ہیں۔ ٹافی اور میٹھا شوق سے کھاتے ہیں۔‘ صرف اسی وجہ سے میں ڈرائیور کو برداشت کرتا رہا کہ وہ خوش اخلاق اور مہربان انسان تھا۔

سفر ایسے ہی ہوتا رہا اور درد بھی ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ اس پر ڈرائیور کی میل ملاقاتیں اسے مزید لمبا اور درد بھرا بنا رہی تھی۔ سفیرِ درد کی موسیقی کی الگ اذیت تھی۔ میں نے ٹیپ بند کرنا چاہا تو ڈرائیور بولا ’باس! اس کے بنا سفر نہیں ہوسکتا۔ یا تو مجھے نیند آجائے گی یا پھر ڈرائیونگ سے تھک جاؤں گا۔‘ لہٰذا اب سفیرِ درد محسن حیات شاداب مزید اونچا گونجتا رہا۔


وادی یارخون کے گاؤں گزرتے رہے۔ شام ہونے لگی تو موسم ایک تو شام کی وجہ سے قدرے بہتر ہوگیا، دوسرا سفر چونکہ مسلسل بلندی کی جانب ہو رہا تھا لہٰذا گرمی رخصت ہونے لگی۔ ایک جگہ ڈرائیور پھر کسی کو ملنے اُترا تو قریب ہی کھیلتے بچوں میں سے ایک بچہ جیپ کے قریب آیا اور سلام لے کر بولا ’ہم کو فٹ بال لے دو۔‘ یارخون میں سیاح کم ہی آتے ہیں۔ غربت زدہ وادی ہے۔ سادہ سے لوگ ہیں۔ بچے سیب جیسے لال سرخ ہیں جن کی آنکھیں سبز یا نیلی ہیں۔ یارخون میں جگہ جگہ سیبوں کے باغات تھے جو پھل سے لدے ہوئے تھے۔ مجھے اس بچے کی معصومانہ فرمائش پر بہت پیار آیا۔ میں نے اسے کہا اچھا کہاں سے ملتا ہے فٹ بال؟ بچہ خوش ہو کر بولا ’وہ سامنے دکان سے۔‘

میں جیپ سے اترا بچوں کو ساتھ لیا اور دکان سے فٹ بال خرید کر گفٹ کردیا۔ جیپ چلی تو میں نے عقبی شیشے سے دیکھا۔ بچوں کی نیلی آنکھیں اور سرخ سیب جیسے گال خوشی سے پھیلے ہوئے تھے۔ وہ سب جمع ہو کر ہاتھ کے اشارے سے مجھے خدا حافظ کہہ رہے تھے۔ میری آنکھ ڈبڈبا گئی۔

ڈرائیور نے خوش ہوکر مجھے بھی ٹافی دینا چاہی مگر میرا حلق دھول مٹی اور گرد و غبار سے جام ہوچکا تھا اس لیے میں نے ٹافی لینے سے معذرت کرلی۔ شام کے سائے پھیلنے لگے. کمر و گردن کا درد ناقابلِ برداشت ہوتا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈرائیور کی میل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی۔ آخر تنگ آکر میں نے اسے کہا کہ تمہاری مہربانی یہ سلسلہ کچھ دیر ترک کردو، لمبا سفر ہے، جلد رات بھی ہوجائے گی۔ ڈرائیور کچھ کچھ سمجھ گیا۔ ابھی آدھا گھنٹہ ہی گاڑی مسلسل چلی تھی کہ پھر بریک مارتے ہوئے بولا، ‘چائے پی لوں ذرا۔‘


یارخون کے گاؤں انکیپ تک آتے آتے رات کا ایک پہر بیت چکا تھا۔ شب بسری کے لیے انکیپ ریسٹ ہاؤس ٹھکانہ تھا۔ رات دردوں کو سہلاتے سہلاتے بیت گئی۔ اگلی صبح پھر سے درد بھرا سفر شروع ہوا۔ سفیرِ درد ہمارا تیسرا ہمسفر بنا رہا۔ یارخون وادی پیچھے رہ گئی۔ گرم چشمہ گاؤں کے آنے تک موسم ہلکا سرد ہونے لگا۔

دھوپ میں شدت نہیں رہی تھی۔ دوپہر میں بھی موسم خوشگوار تھا۔ موسم بدلنے لگا تو طبیعت کی بیزاری بھی رخصت ہوئی۔ درہ دارکوت کی برف پر نظر پڑیں۔ گلیشیر پہاڑ سے پھسل کر دریا کنارے آن لگا تھا۔ درہ دارکوت کو چکار گاؤں سے عبور کرکے کوہ نورد گلگت بلتستان کے ضلع غذر کی بستی اشکومن گاؤں اتر سکتے ہیں۔

اس برفانی پاس کو عبور کرنا آسان مہم جوئی نہیں ہے۔ دارکوت کی برف کو دیکھتے دیکھتے چترال اسکاؤٹس کی چیک پوسٹ آگئی۔ ڈرائیور نے چیک پوسٹ پر آنے کا مقصد بتایا اور اندراج کروا کر آگے بڑھا۔ وادی بروغل کا آغاز تھا۔ آگے اشکرواز گاؤں آ رہا تھا۔


وادی بروغل کی سرحدیں ایک جانب گلگت بلتستان اور دوسری جانب افغان راہداری واخان سے ملتی ہیں۔ بروغل اور غذر کی وادی اشکومن کے درمیان درہ کرومبر ہے جو دونوں وادیوں کو الگ کرتا ہے، وہاں مشہور کرومبر جھیل بھی ہے جس کے نیلگوں پانیوں کو دیکھنے کی خاطر میں گھر سے نکلا تھا۔ کرومبر جھیل لگ بھگ 4300 میٹر کی بلندی پر واقع پاکستان کی دوسری اور دنیا کی 31ویں بلند ترین مقام پر واقع ایسی جھیل ہے جو بایولاجیکلی متحرک ہے۔

اس بڑی جھیل کے علاوہ پہاڑی ٹیلوں کے بیچ اَن گنت رنگین پانیوں کی چھوٹی جھیلیں ہیں جن کے کناروں تک پہنچنے کو ٹریک سے تھوڑا سا ہٹ کر چلنا پڑتا ہے البتہ یہ جھیلیں دُور دُور سے چھب دکھلاتی رہتی ہیں۔ فردوس بریں اس وادی میں زندگی آسان نہیں۔ سردیوں میں 5 سے 6 فٹ برف پڑنے سے وادی کا رابطہ بیرونی دنیا سے کٹ جاتا ہے۔

مقامی لوگ موسمِ سرما کے آغاز سے قبل اپنے یاک و زو (یاک کی مونث) بیچنے کے لیے چترال چلے جاتے ہیں۔ یہی ان کی آمدن کا واحد ذریعہ ہے۔ اس سے وہ گھریلو استعمال کی چیزیں خریدتے ہیں جو سرما کے 6 ماہ گزر بسر کرنے کے واسطے ہوتی ہیں۔ بروغل سے لے کر بالائی ہنزہ گوجال کی وادیوں تک واخی زبان بولی جاتی ہے۔ واخی زبان سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آئی ہے۔ اس زبان کا رسم الخط نہیں ہے جس بنا پر اسے سیکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔


اشکرواز آیا۔ پتھروں سے بنے ایک دو کمروں کے گھروں کے آگے فصلیں کھڑی ملیں۔ یہ جوار کی فصل تھی۔ ہر گھر کے باہر فصل یوں ملتی ہے جیسے ہمارے ہاں گھروں کے باہر لان ہوتے ہیں۔ کہیں کہیں گندم بھی لگی تھی جس کے سنہری خوشے اپنے بوجھ سے جھکے ہوئے تھے۔

جیپ گاؤں کے بیچ سے گزرتی رہی۔ اشکرواز گزرا، گھڑیل گاؤں آیا تو جیپ رُک گئی۔ یہ اس کی آخری منزل تھی کیونکہ اب جیپ ٹریک ختم ہوچکا اور یہاں سے آگے مجھے پیدل سفر شروع کرنا تھا۔ اس مقام سے کرومبر جھیل 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی۔ میرا پہلا پڑاؤ 2 گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع لشکرگاز گاؤں تھا وہیں سے مجھے پورٹر نے لینا تھا۔

جیپ کا سفر تمام ہونے تک ایک اور شام پہاڑوں پر پھیل رہی تھی۔ اپنا رک سیک اور کیمرا بیگ کمر سے باندھے ٹریک شروع کرنے لگا تو وقتِ رخصت ڈرائیور نے مجھے ایک لالی پاپ دیا اور بولا ’باس! اس کو جھیل پر چوسنا۔ آج سے 4 دن بعد میں تمہارا واپسی کے لیے یہیں انتظار کروں گا۔‘ اس کا تحفہ میں نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے بیگ میں ڈالا اور ٹریک شروع ہوا۔

گھڑیل گاؤں سے پیدل نکلا تو یاکوں کے ریوڑ ہم سفر ہوئے۔ کھلے میدانوں میں چلتا رہا۔ کہیں کہیں پانی کے جوہڑ آتے۔ اس راہ پر اِکا دُکا مقامی لوگ پیدل آتے جاتے ملے۔ مقامی لوگ آمد و رفت کے لیے گھوڑے یا یاک کا استعمال بھی کرتے ہیں، جو چند صاحبِ استطاعت ہیں انہوں نے موٹرسائیکل لے رکھی ہے جو ان پہاڑی ڈھلوانوں پر سفر کے لیے موزوں ہے۔ اِکا دُکا کوئی شخص گزرتا اور پھر وہی تنہائی۔ ہُو کا عالم۔ حدِ نگاہ تک کھلا وسیع لینڈاسکیپ جو گھاس سے بھرا تھا۔

پہاڑوں کی چوٹیوں سے رال کی مانند ہر طرف گرتی برف تھی۔ کہیں پالتو گھوڑے چرتے نظر پڑتے اور کبھی کوئی یاک آواز نکالنے لگتا۔ چلتے چلتے ڈھائی گھنٹے بعد لشکرگاز گاؤں کے قریب 2 چھوٹی جھیلیں راہ میں پڑیں۔ وادی بروغل میں ان پہاڑوں کے بیچ لاتعداد چھوٹی جھیلیں موجود ہیں۔

پہاڑوں سے پگھل کر آتی برف کا پانی نشیب میں قدرے ہموار سطح پر رک کر چھوٹی سی جھیل تشکیل دے دیتے ہیں۔ ان جھیلوں کے سبز و نیلگوں پانیوں پر کچھ لمحے گزار کر لشکرگاز آنے تک رات پھیلنے لگی اور پھر ستارے نکلے۔ سفر کی تھکاوٹ مجھے نیند کی وادیوں میں لے گئی۔ علی الصبح آنکھ کھلی تو لشکرگاز گاؤں کے واحد ہوٹل کا مالک سلمان میرے سرہانے کھڑا بولا ’ناشتے میں چائے ریڈی ہے سر۔‘
اس دن میری منزل لشکرگاز سے 7 گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع لیلیٰ رباط کیمپ سائٹ تھی۔ لشکرگاز گاؤں کا نوجوان سیف اللہ میرا پورٹر اب میرا ہم سفر بنا۔ یہ 21 سے 22 سالہ نوجوان اسلام آباد میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور سیاحتی سیزن میں اپنے گاؤں واپس آکر سیاحوں کو بطور پورٹر و گائیڈ کرومبر جھیل لے جانے کا کام کرکے اپنی فیملی کی مالی مدد کرتا ہے۔

لشکر گاز کی چراہ گاہ میں یاکوں کا ریوڑ گھاس چَر رہا تھا۔ گھاس کا رنگ بدلنے لگا تھا۔ ہوا میں سردی بھری ہوئی تھی۔ مقامی لوگ گھاس کاٹ کر سردیوں کے لیے ذخیرہ کرنے میں مشغول تھے۔ ہندوکش کے گھاس کے میدانوں میں چلتے یاک اور گھوڑے ہم سفر بنے رہے۔

انسانوں کی بستی کہیں پیچھے رہ گئی۔ ان گھاس کی ڈھلوانوں میں چلتے سیف اللہ اور میرے سوا کوئی بندہ بشر نہ تھا۔ 4 گھنٹے بعد 15 سے 16 گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں شوار شیر آیا۔ گاؤں کے بچے ہمیں تماشائی سمجھ کر جمع ہونے لگے۔ عورتوں نے ڈوپٹے سنبھالے۔ مسافر کی آمد کی خبر چھوٹے سے گاؤں میں تیزی سے پھیل گئی۔

ایک بزرگ نے زو کا دہی پیش کیا۔ ایک جگ میں لسی آئی۔ پہاڑوں کے اندر بہت دُور بسے اس آخری انسانی آبادی میں مہمان نوازی کی یہی انتہا تھی۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے بعد آگے بس وحشت، تنہائی و عمیق خاموشی کا راج تھا اور چائے ندارد۔ لسی و دہی سے معدے بھرنے کے بعد سفر پھر سے شروع ہوا۔ شوار شیر سے نکلا تو پھر پہاڑی ٹیلوں کے دامن میں واقع چھوٹی جھیلیں ہم سفر رہیں۔


موسم نے انگڑائی لی۔ تیز ہوائیں بادلوں کو دھکیلتے آسمان ڈھانپنے لگیں۔ سردی کی شدت ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ ہوا کو کاٹنے والی گوز ڈاون جیکٹ پہنے اور سر اور کانوں کو ڈھانپے ہم چلتے رہے۔ ہوا کا زور ہمیں پیچھے کو دھکیلتا رہا۔ وادی میں اس دن ہوا نقارے بجاتی تھی۔ سیٹیاں گونجتی تھیں۔ کہیں مارموٹ کی سیٹی اور کبھی اونچی گھاس کو ہوا کی کاٹ موسیقی میں بدل رہی تھی۔

بوندا باندی شروع ہوئی۔ نمک کے ذرے برسنے لگے۔ آسمان سے گرتیں پانی کی بوندیں گھاس پر نمک جیسی جمنے لگیں۔ یاکوں کے ریوڑ سر نیہوڑے اس طوفان کے سامنے رُک چکے تھے۔ ہم دونوں بھی رُک گئے۔ تیز ہوا کا طوفان بہے جارہا تھا۔ کالے بادلوں نے دن میں رات کا سماں کردیا تھا۔ سردی سے کپکپاتے میں نے قدرت کے سامنے اپنی واکنگ اسٹک پر کھڑے کھڑے سر جھکا دیا۔ ’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے پناہ چاہتے ہیں۔‘
ایک گھنٹہ طوفان نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ہوا رُکی، کالے بادل چھٹنے لگے۔ لیلیٰ رباط کیمپ سائٹ تک پہنچتے شام ہو رہی تھی۔ سیف اللہ نے خیمہ نصب کردیا۔ سردی سے کپکپاتا اور سفر سے تھکا میں اپنے خیمے میں سو گیا۔ ساری رات آسمان برستا رہا۔ تیز بارش پہاڑوں، گھاس کی ڈھلوانوں، یاکوں اور میرے خیمے کو دھوتی رہی۔ میری آنکھ کھلتی تو بادلوں کی گرج چمک سے دل دہل جاتا اور پھر تھکن مجھے نیند کی وادی میں لے جاتی۔ 


سیف اللہ اگلی صبح جب مجھے جگا رہا تھا باہر صاف شفاف دھوپ چمک رہی تھی۔ آسمان کھل چکا تھا۔ میں نے خیمے کا پردہ چاک کرکے دیکھا تو لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایسی شفاف دھوپ تھی جیسے قدرت نے بڑا سا آئینہ پہاڑوں پر منعکس کردیا ہو۔ سیف اللہ کے ہاتھ چائے کا کپ تھا۔ آج کی منزل کرومبر جھیل تھی۔ سفر ہوتا رہا۔ بارش سے دُھل کر گھاس نکھر گئی تھی۔ ہلکی بہتی ہوا میں میرے بال اور گھاس کے تنے لہلہاتے رہے۔

تنہائی کی راجدھانی میں چلتا رہا۔ چلتا رہا۔ چلتا رہا۔

دوپہر ڈھلے سورج پھر بادلوں میں جا چُھپا۔ موسم پھر بدلا اور ایک اور ہوا کا طوفان ہماری راہ میں پڑا۔ بارش نے اچانک آن لیا۔ سردی ٹوٹ پڑی۔ جھیل تک پہنچتے شام ہونے لگی۔ مجھے ہلکا بخار ہوا جا رہا تھا۔ سردی نے مجھے بے حال کردیا تھا۔ تھکن میرے اعصاب میں رچ چکی تھی۔ جھیل کہاں تھی؟

ایسا لگتا تھا کہ جھیل کہیں نہیں۔ کبھی نہیں آئے گی۔ سیف اللہ مجھ سے آگے نکل کر جھیل کنارے خیمہ لگانے جاچکا تھا۔ پتا نہیں چلتے چلتے کب سیف اللہ اور خیمہ اچانک سے نظر آگئے۔ میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھا۔ قدم لڑکھڑاتے خود بخود اٹھے جا رہے تھے۔ سر درد نے مجھے نڈھال کردیا تھا۔ ان بادلوں سے ڈھکی کالی شام میں میری نظر جھیل پر نہ پڑی۔ میں خیمے میں اوندھا جا پڑا۔ رات بیتتی رہی۔ سیف اللہ پریشان رہا۔ وہ کبھی پیناڈول کی گولی مجھے چائے کے ساتھ دیتا اور کبھی میرا سر دبانے لگتا۔

ہوش آیا تو نیا چمکتا دن طلوع ہوچکا تھا۔ میری طبیعت قدرے بہتر ہوچکی تھی۔ خیمے سے باہر نکل کر پہلی نظر جھیل پر پڑی تو دل رکنے لگا۔ نیلگوں پانیوں نے آنکھ میں نیل بھر دیا۔ پہاڑ کی اوٹ سے سورج نکل رہا تھا۔ دھوپ کناروں پر پھیلنے لگی تو میں وہیں آنکھیں موندے گھاس و جنگلی پھولوں کے بیچ اوندھا لیٹ گیا۔

بدن میں حرارت گھلنے لگی تھی۔ سرد صبح میں دھوپ کی تمازت سے سکون مل رہا تھا۔ میری منزل میرے سامنے تھی جس کی خاطر میں پچھلے کئی دن سے مسلسل سفر کرتا آ رہا تھا۔ نیلی جھیل کنارے میں خود کو سمیٹ رہا تھا۔ بدن میں دھوپ نے حرارت بھری تو میں اٹھا اور فوٹوگرافی کرنے جھیل کے کناروں پر اتر گیا۔ دن گزرتا رہا۔ چمکتا شفاف دن۔ طبیعت کی بیزاری رخصت ہوئی۔ کچھ دیر بعد جب فوٹوگرافی کرکے واپس اپنے خیمے تک پہنچا تو سیف اللہ چائے تیار کرچکا تھا۔

جھیل سامنے تھی۔ چائے کے گھونٹ بھرتے میرے کانوں میں دُور سے سیف اللہ کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی۔ وہ واخی زبان کا گیت اونچا گنگناتا جھیل کے پاس ایک بڑے سے پتھر پر بیٹھا تھا۔ اس کی آواز نے مجھے بے چین کردیا تو میں چائے کا کپ تھامے چلتا اس کے پاس پہنچا اور بولا ’سیف اس گانے کا ترجمہ کرکے بتاؤ۔‘


’جانان! پہاڑوں پر ڈھلتی دھوپ ہوں، جھیل پر بہتی ہوا ہوں، میں گڈریے کی صدا ہوں، بہت دُور جاچکا ہوں۔ اب آواز مجھے نہ دو۔‘ 
کرومبر جھیل میرے سامنے رنگ بدلتی رہی۔ ان رنگوں کو سمیٹے جھیل کے کناروں پر دن بیتتا رہا۔ کیمرا بیگ کے ایک خانے سے میرے ڈرائیور کا تحفہ لالی پاپ برآمد ہوا تو مجھے دیکھ کر ہنسی آگئی۔ اب تک کے اس سفر میں بیتے سارے لمحے نظروں کے سامنے چلنے لگے۔ وہ چھوٹی چھوٹی جھیلیں جن کے درشن کرتا میں یہاں تک پہنچا تھا ایک ایک کرکے دھیان میں آنے لگیں۔ وادی بروغل کا باب بند ہونے کو تھا۔

جھیلوں نے دامن سمیٹ لیے تھے۔ مسافر جادو نگری سے نکلنے کو تھا۔ خراج وصول کرکے اسی راستے سے میری واپسی تھی جس راستے یہاں تک پہنچا تھا۔ آوارہ گرد کی ڈائری میں نیا باب کھل چکا تھا۔ واپس مڑتے جھیل پر آخری نگاہ ڈالی۔ وہی حسرت بھری نگاہ جس سے انسان اس نگینے کو دیکھتا ہے جس کو وہ ہمیشہ کے لیے نہ پاسکتا ہو۔ پہاڑوں میں جڑے انسانی آبادیوں سے بہت دُور اس نیلم کو میں نے کچھ لمحوں کے لیے قدرت سے چُرا لیا تھا۔ اب واپسی تھی۔ میں نے رُخ موڑا۔ آگے لاہور تھا۔

بقول منیر نیازی مرحوم محبت تب نہیں ہوتی جب انسان قرب میں وجود رکھتا ہو۔ محبت تو تب ہوتی ہے جب انسان جدا ہوجائے۔ محبت اس کی یاد میں ہوتی ہے۔ یہ کالم لکھتے وقت اپنے گھر کے سفیدی پھرے کمرے میں بیٹھا میں بروغل کی وادیوں میں جا نکلا تھا۔ دھیان ٹوٹا تو بیگم کی آواز سنائی دی ’آپ نہ جانے کن خیالوں میں ہوتے ہیں۔ آپ کے سامنے پڑی چائے دوسری بار ٹھنڈی ہوچکی ہے۔‘ میرے دھیان میں سیف اللہ گنگنانے لگا۔
بہت دُور جاچکا ہوں، اب آواز مجھے نہ دو۔


لکھاری پیشے کے اعتبار سے شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

سید مہدی بخاری

لکھاری یونیورسٹی آف لاہور کے کریئٹیو آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ فوٹوگرافی شوق ہے، سفر کرنا جنون ہے اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

ان کا فیس بک پیج یہاں وزٹ کریں: سید مہدی بخاری فوٹوگرافی

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔