مزید کے لیے کلک کریں
میں نے شہر کو پہنچنے والے نقصانات کا سرسری جائزہ لینے کے لیے شہر کا چکر لگانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے پایا کہ مختلف مقامات پر دیواریں مکمل طور پر گرچکی ہیں تو کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا، یعنی ان میں گہری دراڑیں پڑگئی تھیں۔ گاڑیوں کے شورومز کی دیواریں گری ہوئی تھیں جس کے نتیجے میں نئی نئی گاڑیاں ملبے تلے دب چکی تھیں۔
اچانک سے ایک افراتفری کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ڈی ایچ کیو ہسپتال کی طرف رواں دواں تھی تاکہ صورتحال کا ٹھیک اندازہ ہوسکے۔ پھر یہ بھی اطلاع موصول ہوئی کہ اس زلزلے کی شدت 5.8 تھی، اور یہ بھی پتا چلا کہ میرپور سے چند کلومیٹر دُور ایک نواحی علاقے میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اس علاقے کو شہر سے ملانے والی واحد نہر سے متصل سڑک ٹوٹنے کی وجہ سے وہاں موجود کچھ گاڑیاں نہر میں گرگئی تھیں اور کچھ الٹی پڑی ہوئی تھیں۔ سڑک پر بہت گہرے شگاف پڑگئے تھے، یوں اس علاقے کا شہر سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہوگیا تھا۔
زلزلے کے بعد پاک فوج کی امدادی ٹیمیں بلا تاخیر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پہنچ گئیں۔ چونکہ آزاد کشمیر کی حکومت اس قسم کے سانحے کے لیے تیار ہی نہیں تھی اور خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں تھے اس لیے پاک فوج نے برق رفتاری سے امدادی کام شروع کردیے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے بھی لوگ اپنے رشتہ داروں کی خیر و عافیت جاننے یہاں پہنچنا شروع ہوگئے۔
گزرتے وقت کے ساتھ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ 400 سے زائد مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے دیواریں اور چھتیں گرنے کے باعث زخمی ہوئے ہیں۔ اس وقت بھی میں میرپور کے ہسپتال میں موجود ہوں، رات کا پہر ہے لیکن ہر تھوڑی دیر بعد ایمبولینسیں زخمیوں کو ہسپتال لارہی ہیں۔
امدادی سرگرمیاں رات کے اس پہر بھی جاری ہیں اور آزاد کشمیر کے وزیرِاعظم بھی لاہور کا دورہ مختصر کرکے واپس آچکے ہیں اور دیگر اہم سیاسی اور حکومتی شخصیات بھی پہنچنے والی ہیں۔
یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ اس زلزلے سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
زلزلے کے شدید جھٹکوں کے باعث شہر کی بلند و بالا عمارتوں کی بنیادیں ہل چکی ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں جانے سے خائف ہیں کیونکہ گھر میں اتنی گہری دراڑیں پڑچکی ہے کہ رہائش کے بھی قابل نہیں رہیں۔
میں نے دیکھا کہ 2 چینی افراد نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں پڑنے والی دراڑیں دیکھنے کے بعد وہاں زیادہ دیر رکنا مناسب نہیں سمجھا اور وہاں سے چلے گئے۔
اس کے علاوہ اطلاع آئی ہے کہ اگلے 24 گھنٹوں کے دوران آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں پر خوف و خطرے کی کیفیت طاری ہے اور بہت سے لوگوں نے چھتوں پر سونے کے بجائے صحن میں سونے کا فیصلہ کیا ہے۔ خون کے عطیات دینے کا سلسلہ بھی دیکھا گیا۔
جاتلاں نامی نواحی علاقے کا شہر سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وہاں موجود لنک پُل کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ سڑکوں میں بڑے بڑے شگاف پڑچکے ہیں۔ دیگر علاقوں میں متاثرین کی امداد کے لیے سڑک کی بحالی یقیناً حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
رات کا وقت ہونے کے باعث امدادی سرگرمیاں اس رفتار سے جاری نہیں ہیں جس رفتار سے ہونی چاہئیں۔
عتیق سدوزئی: ڈپٹی ایڈیٹر، کشمیر ٹائمز میں میرپور شہر کے ایک مقامی ہوٹل پر دوستوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک پوری عمارت ہلنا شروع ہوگئی اور ہم اپنا سامان چھوڑ کر وہاں سے باہر نکل گئے۔ ہوٹل سے باہر آکر دیکھا کہ آس پاس موجود بلند و بالا عمارتوں کے شیشے ہر طرف بکھرے پڑے تھے جبکہ جس ہوٹل میں ہم بیٹھے تھے اس کی بیرونی دیوار مکمل طور پر گرچکی تھی اور دوسری طرف بڑی بڑی دراڑیں نظر آئیں۔
لوگوں میں کافی خوف پھیلا ہوا تھا، پریشانی کے آثار ہر ایک کے چہرے پر عیاں تھے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ہوٹل کے برابر میں موجود پلازہ کی چھت گری ہے جس کے ملبے تلے چند افراد دبے ہوئے ہیں۔ ہم مدد کے لیے اس جگہ بھاگتے دوڑتے پہنچے تو وہاں ہم نے ایک بزرگ شخص کو ملبے میں پھنسا ہوا پایا۔
ان کے علاوہ کئی زخمی بھی وہاں موجود تھے، کسی کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا تو کسی کے بازو یا ہاتھ پر شدید زخم دکھائی دے رہے تھے، لہٰذا ہم نے وہاں کھڑے دیگر افراد کے ساتھ مل کر انہیں فوراً ہسپتال پہنچایا۔
کئی لوگ اپنے اپنے گھروں میں اپنی خیریت بتانے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے موبائل فون پر رابطے میں مصروف نظر آئے مگر کچھ ہی دیر میں موبائل نیٹ ورک ڈاؤن ہوگیا تھا، شاید اس کی وجہ نیٹ ورک پر پڑنے والا دباؤ تھا، کیونکہ تقریباً ہر شہری ہی موبائل کے ذریعے اپنے گھر والوں یا عزیز و اقارب سے رابطہ کرنے میں مصروف تھا۔
اب چونکہ موبائل پر رابطہ نہیں ہو پارہا تھا اس لیے پریشانی مزید بڑھ رہی تھی اور لوگوں نے گاڑی، موٹر سائیکل اور پیدل اپنے گھروں کی طرف بڑھنا شروع کردیا اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے سڑک پر آنے سے ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ بہت ہی عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ آس پاس کی عمارتوں کے لوگ بھی سڑک کے قریب کھڑے ہوئے تھے۔