نقطہ نظر

زلزلے سے پڑنے والے شگاف کس بات کی علامت ہیں؟

یہ زلزلے تصادم زمین کی اٹھان یا ابھار کا سبب بن رہے ہیں اور یہ صورتحال توجہ طلب اور تشویشناک ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کے ارضیاتی تبدیلیوں والے ایسے حصے میں موجود ہے جہاں زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹس بے حد متحرک ہیں جس کی وجہ سے یہاں پورا سال معمولی نوعیت کے جھٹکوں کے علاوہ چند شدید نوعیت کے زلزلے اب معمول بن گئے ہیں۔

8 اکتوبر 2005ء میں آزاد کشمیر، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں آنے والے تاریخ کے بدترین زلزلے میں آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس زلزلے میں 80 ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے، اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان علاقوں میں زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹس مسلسل متحرک ہیں۔

گزشتہ روز شام 4 بج کر 2 منٹ پر پاکستان کے متعدد علاقوں سمیت آزاد کشمیر میں میرپور اور ملحقہ علاقوں میں زلزلہ آیا جس کی شدت 5.8 ریکارڈ کی گئی جبکہ گہرائی 10 کلومیٹر اور اس کا مرکز جہلم کے شمال میں تھا۔

ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 15 سالوں میں دنیا بھر میں آنے والے زلزلوں سے لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے جبکہ تباہی سے متاثر ہونے والے زخمیوں کی تعداد تو کروڑوں میں ہے۔ ان سالوں میں سب سے تباہ کن زلزلہ کیریبیئن جزیرے ہیٹی میں آیا جس میں 3 لاکھ سے زائد افراد اپنی جان سے گئے۔

8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد اگرچہ ہماری حکومتیں تو ہمیشہ کی طرح غفلت کی نیند سوتی رہیں اور بات ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ادارے تشکیل دینے اور پالیسیاں بنانے سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ مگر بین الاقوامی اداروں اور ماہرینِ ارضیات نے پاکستان کے ان علاقوں پر کافی تحقیق کی ہے جہاں ہر کچھ ماہ ماہ بعد 4 سے 5 شدت کے زلزلے اب معمول بنتے جا رہے ہیں۔

2006ء میں آزاد کشمیر اور ملحقہ علاقوں کے بارے میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان، بھارت اور افغانستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے زلزلے اور ان سے پڑنے والی دراڑیں یہاں کی زمین کے ایک سے دو انچ تک شمال کی جانب سرکنے اور یوریشیا کی تہہ کے ساتھ ٹکرانے کے باعث رونما ہورہے ہیں۔

یہ تصادم زمین کی اٹھان یا ابھار کا سبب بن رہے ہیں اور یہ صورتحال توجہ طلب اور تشویشناک ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے سرکنے اور بتدریج ابھار سے ہندوکش، قراقرم، ہمالیہ اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں میں واقع دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی ایسے ہی وجود میں آئی تھیں۔

زلزلے کیوں آتے ہیں؟

یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ زلزلے زمین کی اوپری تہہ کرسٹ یا قشرِ ارض سے اچانک توانائی کے اخراج کے باعث آتے ہیں۔ توانائی کا اخراج لہریں پیدا کرتا ہے جس سے ٹیکٹونک پلیٹس متحرک ہوکر کم یا زیادہ شدت کے زلزلے کی لہریں پیدا کرتی ہیں۔ ان پلیٹوں کی حرکت کی نوعیت کے مطابق زلزلے مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور اسی طرح ان کی ہلاکت خیزی بھی کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ ٹیکٹونک پلیٹس ایک دوسرے کے قریب سرکتے ہوئے کبھی اوپر نیچے یا پہلو میں ہوتی رہتی ہیں اور ان کی حالت میں ہونے والی فوری تبدیلی سے زمین میں شگاف یا دراڑیں پڑتی ہیں۔

لہٰذا جب ماہرین کسی مخصوص علاقے میں آنے والے زلزلوں پر تحقیق کا آغاز کرتے ہیں یا ایک بڑے جھٹکے کے کچھ دن بعد تک آنے والے آفٹر شاکس کے بارے میں عوام کو آگاہ کیا جاتا ہے تو زلزلے کی شدت، زیرِ زمین گہرائی اور مرکز کے علاوہ اس سے پڑنے والی دراڑوں کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں آنے والے زلزلوں کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان اور ملحقہ علاقوں میں زیادہ تر زلزلے اس وقت آتے ہیں جب ہندوستانی زمین کی تہہ یا پرت شمال کی جانب متحرک ہوکر یوریشیائی زمینی تہہ کے نیچے کھسک جاتی ہے۔ چونکہ ان علاقوں میں ایسے پوشیدہ بڑے زمینی شگافوں کی بھرمار ہے جو زمین کی سطح اور پہاڑی سلسلوں کی تہہ میں واقع ہیں۔

اس لیے پلیٹوں کی اچانک حرکت سے ان شگافوں میں دباؤ بڑھ جاتا ہے جو زلزلے کا سبب بنتا ہے اور عموماً ان علاقوں میں زلزلے کے جھٹکوں کے بعد سطح زمین پر بڑے شگاف نمودار ہوجاتے ہیں یا زمین پھٹ جاتی ہے۔

ایسا ہی کچھ گزشتہ روز میرپور میں آنے والے زلزلے کے بعد بھی ہوا ہے جہاں جاتلاں اور گرد و نواح میں انفرااسٹرکچر بُری طرح تباہ ہوا اور زلزلے سے سڑکوں پر کئی کلومیٹر طویل شگاف پڑگئے ہیں۔ یہ شگاف اس امر کی علامت ہیں کہ یہ علاقے فالٹ زون میں واقع ہیں اور یہاں زلزلہ شناسی یعنی (Paleoseismology) کی جدید تکنیک استعمال کرتے ہوئے باقاعدہ ایک ماڈل بنانے کی ضرورت ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ مستقبل میں یہاں آنے والے زلزلے کس حد تک ہلاکت خیز ہوسکتے ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی اگرچہ اس وقت اپنی ترقی کے عروج پر ہے مگر اس کے باوجود انسان آج تک کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں کرسکا جو کسی مخصوص علاقے میں زلزلے کی پیش گوئی کرسکے، ہاں مگر جیولوجی اور جیو انجینئرنگ میں پیش رفت کے ذریعے ایسی تکنیک ضرور دریافت کرلی گئی ہیں جن سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی علاقے میں زیرِ زمین پلیٹس کتنی متحرک ہیں اور وہ کس فالٹ زون میں واقع ہے۔

انہی میں سے ایک تکنیک Paleoseismology بھی ہے جس میں انتہائی حساس ہائپر اسپیکٹرل کیمروں اور جی پی ایس کو استعمال کرتے ہوئے زیرِ زمین شگافوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو کسی علاقے میں تباہ کن زلزلے کا سبب بنتے ہیں۔

کیا منگلا ڈیم خطرے میں ہے ؟

واضح رہے کہ گزشتہ روز آنے والے زلزلے سے میرپور میں واقع منگلا ڈیم معجزاتی طور پر محفوظ رہا اور اس کے قریب سے گزرتی ایک سڑک کو نقصان پہنچا۔ جس وقت زلزلہ آیا اس وقت ڈیم سے 900 میگاواٹ بجلی کی تیاری کا عمل جاری تھا جو ضائع ہوگئی اور اب ملک کے مختلف علاقوں کو لوڈشیڈنگ کا سامنا رہے گا۔

2008 میں انٹرنیشنل واٹر پاور میگزین کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق زلزلے پانی کے ذخائر خصوصا ڈیم کے لیے انتہائی خطرناک ہیں کیونکہ زلزلے کے جھٹکوں سے ڈیم میں تھرتھراہٹ یا وائبریشن پیدا ہوتی ہے جس سے ڈیم میں نصب آلات ہی نہیں بلکہ اس کے پورے اسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اس حادثے کے بعد کچھ آوازیں ایسی بھی آرہی ہیں کہ کیا منگلا ڈیم بنانے کے لیے اس مقام کا انتخاب ٹھیک تھا؟ کیا ڈیم کی تعمیر سے پہلے انجینئرز نے ارضیاتی سروے کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی تھی؟ کیونکہ کسی فالٹ زون میں ڈیم بنانا بہتر فیصلہ تصور نہیں کیا جاتا۔

اب اس زلزلے کے بعد ڈیم کا مستقبل کیا ہوگا، ماہرین یقینی طور پر اس جانب توجہ دیں گے، کیونکہ یہ زلزلہ 5.8 کی نسبتاً کم شدت کا تھا، اگر خدانخواستہ شدت زیادہ ہوتی تو مزید نقصان ہوسکتا تھا۔

5.8 شدت کا ایک اور زلزلہ تباہی پھیلا کر جاچکا ہے اور ہمیشہ کی طرح ہماری حکومتوں کی جانب سے بیانات جاری کردیے گئے ہیں، لیکن کیا کبھی پاکستان میں ایک مکمل ڈیزاسٹر پالیسی نافذ ہوسکے گی؟

کیا فالٹ زون میں واقع ان علاقوں میں تعمیرات سے متعلق کوئی قانون یا کوڈ آف کنڈکٹ نافذ کیا جاسکے گا؟

یاد رکھیے! زلزلہ ایک قدرتی آفت ہے جس سے بچنا ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی ممکن نہیں، مگر ان زلزلوں کی وجہ سے ہونے والی تباہی کو محدود کرنا ہم انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب فالٹ زون میں واقع علاقوں میں محفوظ تعمیرات کی جائیں، لیکن افسوس کہ اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔

صادقہ خان

صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔