پاکستان

غیر منظور شدہ منصوبوں کے لیے فنڈز جاری نہیں ہوں گے، وزارت خزانہ

سی ڈی ایل کا میکانزم تبدیل نہیں کیا گیا تو اس کا حجم این ایچ اے کی مالیاتی صلاحیت سے بڑھتا رہے گا، سیکریٹری کمیونکیشنز

اسلام آباد: نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے غیر فعال سڑکوں کے منصوبوں اور حکومت کی جانب سے 400 ارب روپے کے کیش ڈیولپمنٹ لونز (سی ڈی ایل) کے حوالے سے شکایات کی بھرمار ہونے پر وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال غیر منظور شدہ منصوبوں کو فنڈز فراہم نہیں کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 اہم وزرا نے پارلیمانی پینل کے سامنے جواب دیتے ہوئے مستقبل میں مالی پالیسی کے حوالے سے اہم فیصلوں کے بارے میں بتایا، گرم بحث کے دوران متعدد وزرا نے اپنے موقف پر وضاحت دی اور کچھ موقع پر دیگر کو چیلنج کیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کی صدارت سینیٹر آغا شاہزیب درانی کر رہے تھے۔

اجلاس کے دوران کمیونکیشنز سیکریٹری جواد رفیق ملک کا کہنا تھا کہ وزارت نے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں سمری پیش کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ این ایچ اے سیاسی فیصلوں کے تحت متعارف کرائی گئیں سڑکوں اور موٹروے منصوبوں میں زیادتی کی وجہ سے کیش ڈیولپمنٹ پروگرام میں مزید دلچسپی نہیں رکھتی۔

مزید پڑھیں: افسوس! اب اسلام آباد تباہ شدہ شہر ہے، سپریم کورٹ

ان کا کہنا تھا کہ 'جب تک سی ڈی ایل کا میکانزم تبدیل نہیں کیا جاتا اس کا حجم این ایچ اے کی مالیاتی صلاحیت سے بڑھتا رہے گا جس کی وجہ سے این ایچ اے کو سی ڈی ایل فراہم کرنے کا عمل رک جائے گا۔

جواد رفیق ملک کا کہنا تھا کہ این ایچ اے کو منصوبوں کے بدلے پورے فنڈز بھی نہیں فراہم کیے گئے جو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حصہ تھے اور وہ کیس حالیہ 2 کورٹرز میں بھی برقرار رہا۔

سی ڈی ایل، وفاقی حکومت سے 2 سے 5 فیصد شرح سود پر معاہدہ ہوتا ہے جو متعدد کارپوریشنز اور عوامی اداروں کو 14 سے 15 فیصد مارک اپ پر دیا جاتا ہے۔

سیکریٹری منصوبہ بندی ظفر حسن نے پارلیمانی پینل کو بتایا کہ وہ ایگزیکٹو کمٹی برائے قومی اقتصادی کونسل میں سمری کو منظوری کے لیے پیش کر رہے ہیں تاکہ مختص کیے گئے 20 فیصد فنڈز کو پہلی سہہ ماہی میں بغیر مطالبے کے ادا کردیے جائیں۔

ان کے بعد جوائنٹ سیکریٹری وزارت خزانہ جاوید اقبال خان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ رواں مالی سال کے دوران غیر منظور شدہ منصوبوں کے لیے فنڈز نہیں جاری کرے گا تاکہ عوام کے پیسے کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔

انہوں نے وضاحت دی کہ وزارت خزانہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے سی ڈی ایل حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام اس کے مالی خسارے پر نظر رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو سراہا جانا چاہیے کہ حکومت اپنی متعدد ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی سرمایہ کاری بانڈز اور دیگر طریقوں سے مارکیٹ سے فنڈز بڑھا رہی ہے۔

کمیٹی نے وزارت مواصلات، بجلی، پانی اور خزانہ کو گزشتہ سہہ ماہی کے دوران اجرا کے حوالے سے بھی سنا۔

یہ بھی پڑھیں: این ایچ اے میں باقاعدہ طریقہ کار اپنائے بغیر ٹھیکے دینے کا انکشاف

انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ این ایچ اے گزشتہ سہہ ماہی کے دوران کوئی رقم جاری نہیں کررہا تھا اور کمیٹی نے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔

سیکریٹری منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال این ایچ اے کا مختص کردہ بجٹ 188 ارب روپے تھا اور اسے 251 ارب روپے ملے تھے جو مختص کردہ رقم سے 134 فیصد اضافی تھے۔

سیکریٹری مواصلات جواد رفیق کا کہنا تھا کہ یہ ناقابل قبول ہے مختص کیے گئے 188 ارب روپے کے مقابلے میں ادائیگی 134 فیصد (251 ارب روپے) تک کی گئی کیونکہ حکومت کو بجٹ تخمینے کے 72 ارب روپے کے مقابلے میں 173 ارب روپے غیر ملکی معاونت میں ملے اور بجٹ تخمینہ 240 فیصد تک بڑھا، جس میں پی ایس ڈی پی کے اجرا کا کوئی عمل دخل نہیں۔

دوسری جانب منصوبہ بندی ڈویژن نے مختص کیے گئے 116 ارب روپے میں سے صرف 67 فیصد (78 ارب روپے) جاری کیے اور مقامی رقم کم ہوگی جبکہ غیر ملکی بہاؤ کو بڑھایا گیا۔

این ایچ اے کی گزشتہ مالی سال کی آخری سہہ ماہی میں ادائیگی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔

جواد رفیق کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے منصوبے کے پورا ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متعدد منصوبوں میں 19.6 ارب کے فنڈز کام مکمل ہونے کے باوجود بھی جاری نہیں کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ روڈ اور موٹروے کے منصوبے زیادہ تر سیاسی فیصلوں کی وجہ سے متعارف کرائے جاتے ہیں اور ایسے منصوبوں کے بدلے سی ڈی ایل دباؤ کا شکار ہوتی ہے جبکہ ان میں سے زیادہ تر اقتصادی طور پر قابل عمل بھی نہیں۔

انہوں نے مثال پیش کی کہ گوادر کے نزدیک کراچی-کوئٹہ کوسٹل ہائی وے اور سڑکیں این ایچ اے کے لیے کئی سالوں سے کم ٹریفک کی وجہ سے غیر فعال ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'این ایچ اے کا پورٹ فولیو 25 کھرب سے کہیں بڑھ گیا ہے اور اس کا صرف سی ڈی ایل ہی 400 ارب سے تجاوز کرگیا ہے، این ایچ، ان قرضوں کو اپنے تمام اثاثے فروخت کرنے کے باوجود نہیں ادا کرسکتا'۔