پاکستان

سپریم کورٹ: جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروانے کی ہدایت

یہ ہمارے ساتھی جج کا معاملہ ہے ہم جو بھی کریں گے وہ آئین و قانون کے مطابق ہوگا، جسٹس عمر عطا بندیال
|

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدارتی ریفرنس کے خلاف متعلقہ جج کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

اس دوران جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ چھٹی پر ہونے کی وجہ سے اس سماعت میں شامل نہیں ہیں جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی بھی طبیعت خراب ہے اور وہ عدالت میں پہلے ہی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست جمع کرواچکے ہیں، جسے مسترد کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کیلئے 10 رکنی فل کورٹ تشکیل

دوران سماعت بینچ کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت اٹارنی جنرل کے دفتر سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرے گی، جس پر عدالت میں موجود ایڈشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ اس پر تحریری جواب آئندہ سماعت پر جمع کروادیا جائے گا۔

اسی دوران جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ 'یہ بہتر ہوگا کہ اگر آپ (عامر رحمٰن) اگلی سماعت سے ایک ہفتے قبل اپنا جواب جمع کروائیں'۔

ساتھ ہی بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کیس کو طویل مدت کے لیے التوا میں نہیں ڈالے گی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھی جج کا معاملہ ہے ہم جو بھی کریں گے وہ آئین و قانون کے مطابق ہوگا۔

اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تمام فریقین آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور وزیراعظم کو ملنے والی استثنیٰ پر عدالت کو مطمئن کریں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے اس درخواست پر مزید سماعت کے لیے عدالتی کارروائی کو 8 اکتوبر تک ملتوی کردیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت کے لیے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

اس بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال ہیں جبکہ ان کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین شامل ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے)، پاکستان بار کونسل (پی بی سی)، عابد حسن منٹو، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کوئٹہ کے سربراہ عبدالباسط، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کی مجموعی طور پر 9 درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدعا

خیال رہے کہ 17 ستمبر کو سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والا عدالت عظمیٰ کا 7 رکنی بینچ، ججز پر اعتراض کے بعد تحلیل ہوگیا تھا اور نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیج دیا گیا تھا۔

اس سے قبل ایک سماعت میں 7 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست سنی تھی، جس میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عرب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل شامل تھے۔

تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی جانب سے ججز پر اعتراض اٹھایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ 'جن ججز نے چیف جسٹس بننا ہے، ان کی دلچسپی ہے، اس بینچ کے 2 ججز ممکنہ چیف جسٹس بنیں گیے اور ان دو ججز کا براہ راست مفاد ہے'۔

بعد ازاں اس وقت بینچ میں شامل جسٹس طارق مسعود نے کہا تھا کہ ہم پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے کہ بینچ میں نہیں بیٹھنا، اس کے ساتھ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ہم نے جو حلف اٹھایا ہے تمام حالات میں اس کا پاس رکھنا ہوتا ہے، ہمارے ساتھی جج کی جانب سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوسناک ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس ریفرنس کو چیلنج کیا تھا اور عدالت عظمیٰ سے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: عوام کے ٹیکس سے تنخواہ لینے والے پر آئین کی پاسداری لازم ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

صدر مملکت کو اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ انہوں نے لندن میں موجود جائیدادوں سے متعلق کچھ نہیں چھپایا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کون ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8 صفحات پر مشتمل خط میں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آئین کی پیروی کی جائے۔

لندن میں 3 جائیدادیں رکھنے کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خود پر اور اپنے خاندان کے خلاف تحقیقات کے طریقے پر صبر کرلیں لیکن کیا یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کا باعث نہیں ہورہا۔

خط میں انہوں نے کہا تھا کہ جج ایسا کچھ ہونے کی اجازت نہیں دیتے اور اپنے آئینی حلف کے مطابق وہ آئین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتے ہیں۔