پاکستان

جج ویڈیو لیک کیس: ایف آئی اے کی اپنے ہی افسران کے خلاف کارروائی کی استدعا

سائبر عدالت میں پیش کی گئی چارج شیٹ میں پراسیکیوٹر سمیت 4 افسران پر ملزمان سے تفتیش میں غفلت برتنے کا الزام لگایا گیا۔
|

اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تجویز پر ویڈیو اسکینڈل کیس کے تینوں ملزمان کے بری ہونے کے بعد ایف آئی اے نے اس کیس میں غفلت برتنے پر سائبر جرائم عدالت کے خصوصی جج سے اپنی ہی ٹیم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی استدعا کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سائبر عدالت میں جمع کروائی گئی چارج شیٹ میں ایف آئی اے نے پراسیکیوٹر سمیت اپنے 4 افسران پر سابق جج ارشد ملک کی مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو سے متعلق کیس کی تحقیقات میں غفلت برتنے کا الزام لگایا اور قانونی کارروائی کی درخواست کی۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنانے والے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک نے ایک ویڈیو میں اعتراف کیا تھا کہ انہیں ایک غیر اخلاقی ویڈیو کی بنیاد پر نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے بلیک میل کیا گیا اور ان پر دباؤ ڈالا گیا۔

مذکورہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ایف آئی اے میں درج کروائے گئے مقدمے میں مذکورہ جج نے ناصر جنجوعہ، مہر غلام جیلانی اور خرم یوسف کو نامزد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس: ناصر جنجوعہ سمیت 3 ملزمان عدم شواہد پر بری

جس کے بعد ایف آئی اے نے سب سے پہلے میاں طارق کو ویڈیو لیک کیس میں گرفتار کیا جبکہ دیگر 3 ملزمان کو سائبر جرائم عدالت کے خصوصی جج طاہر محمود خان کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کیے جانے پر حراست میں لیا گیا۔

تاہم 7 ستمبر کو ایف آئی کی جانب سے ملزمان کو رہا کرنے کی درخواست پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے تھے۔

مذکورہ سماعت میں ایف آئی اے نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ تینوں ملزمان کے خلاف شواہد نہیں ملے، عدالت چاہے تو انہیں رہا کردے جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بھی تفتیشی افسر کی تائید کی تھی۔

مزید پڑھیں: جج ویڈیو لیک کیس: سائبر کرائم عدالت نے ملزم کو عبوری ضمانت دے دی

بعدازاں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ ثاقب جواد نے حکم جاری کیا تھا کہ ’دونوں فریقین کے جھگڑے میں دستیاب مواد میں ملزمان کے خلاف کوئی ایک ثبوت نہ مل سکا‘ جس کی بنا پر ان ملزمان کی حراست کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا کیوں کہ پراسیکیوشن کے مطابق کوئی بھی ثبوت یا مواد ریکارڈ پر موجود نہیں۔

نتیجتاً ملزمان کو کسی اور کیس میں ملوث نہ ہونے کی صورت میں اس کیس سے بری کر کے رہا کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد ایف آئی اے ڈائریکٹریٹ جنرل نے یہ انکوائری انسداد دہشت گردی ونگ میں منتقل کردی تھی، چونکہ مذکورہ مقدمہ سائبر جرائم کی عدالت میں بھی زیر سماعت تھا اس لیے جج نے تینوں ملزمان کی رہائی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیشی ٹیم کے خلاف چارج شیٹ طلب کی تھی۔

چنانچہ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروائی گئی چارج شیٹ میں ادارے کے ڈائریکٹر افضل بٹ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فاروق لطیف، فضل محبوب اور پراسیکیوٹر کریم اللہ تارڑ پر تینوں ملزمان سے تفتیش میں غلفت برتنے کا الزام لگایا، جس کے نتیجے میں ملزمان کی رہائی عمل میں آئی۔

ایف آئی اے نے قانونی کارروائی کی بھی درخواست کی تاہم کیس کی مزید سماعت 30 ستمبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل ہے کیا؟

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

جج ارشد ملک کیس میں عدالتی فیصلے

مذکورہ ویڈیو اسکینڈل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

دارالحکومت کے ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کو کرنا تھی اور اس سلسلے میں لاہور عدالت کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا۔

بعدازاں 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی طرف سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔