پاکستان

غیر ضروری گرفتاریوں، جھوٹی گواہی پر بھی پالیسی بنائی جائے، چیف جسٹس

نیشنل پولیس بیوروکو پورے ملک کے لیے متفقہ پالیسی بنانے اورایف آئی آر کے درست اندراج کی پالیسی بھی وضع کرنے ہدایت کی گئی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پورے ملک کے لیے متفقہ پولیس پالیسی بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری گرفتاریوں، جھوٹی گواہی اور غلط ثبوت پر بھی پالیسی بنائی جائے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پولیس اصلاحات کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں جسٹس گلزار احمد اور چاروں صوبوں کے آئی جیز، سابق آئی جیز سمیت دیگر نے شرکت کی۔

سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے ایف آئی آر کے درست اندراج پر زور دیا اور کہا کہ نیشنل پولیس بیورو ایف آئی آر کے درست اندراج کے لیے پالیسی وضع کرے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نیشنل پولیس بیورو متفقہ پالیسی پورے ملک کے لیے اور غیر ضروری گرفتاریوں، جھوٹی گواہی اور غلط ثبوتوں پر بھی پالیسی بنائے۔

مزید پڑھیں:'جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کر کے رکھ دیا'

قومی پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ایسی پالیسی وضع کریں تا کہ محکمہ پولیس اور ایف آئی آر کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق اجلاس میں کہا گیا کہ پولیس اصلاحات کمیٹی چاروں صوبوں کے آئی جیز کے ساتھ مل کر سفارشات تیار کرے گی۔

اس موقع پر سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کمیشن ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے عوامی شکایت کے ازالہ سینٹرز پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔

سیکریٹری لااینڈ جسٹس کمیشن نے کہا کہ یکم جنوری 2019 سے 15 ستمبر 2019 تک عوامی شکایت ازالہ سینٹرز میں 95 ہزار 41 شکایات نمٹا دی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 ہزار 796 شکایات ایف آئی آر درج نہیں کیے جانے سے متعلق تھیں جن میں س 19 ہزار 123 کو نمٹا دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:قانون کے مطابق جھوٹی گواہی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، چیف جسٹس

آئی جی پنجاب نے کہا کہ رواں برس پنجاب میں قتل کے مقدمات میں ملزمان کے بری ہونے کی شرح 69 فیصد رہی۔

سپریم کورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے ناقص پولیس تفتیش کے باعث ملزمان کے بری ہونے پر تشویش کا اظہار کیا تاہم پولیس کے شکایات سیل اور ڈی اے سی پر اعتماد کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شکایات سیل کے قیام سے عدلیہ پر پڑنے والا غیر ضروری بوجھ کم ہوگیا ہے۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ پولیس کو امن کی صورت حال بہتر کرنے کے لیے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا ہو گی، دیہی علاقوں میں بااثر لوگ پولیس کے ذریعے شہریوں پر دبائو ڈالتے ہیں اس لیے ان علاقوں میں بھی پولیس کو بہتر کارکردگی دکھانا ہو گی۔